السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شرعی طور پر شیرخوار بچے کے پیشاب پر چھینٹے مارے جاتے ہیں جبکہ بچی کے پیشاب کو دھویا جاتا ہے، بچے اور بچی کے پیشاب میں اس فرق کی کیا حیثیت ہے؟ کیا بچی کے پیشاب میں زیادہ نجاست ہوتی ہے؟ بظاہر ایساکرنا عدل و انصاف کے منافی معلوم ہوتا ہے ، قرآن و حدیث کی روشنی میں اس فرق کا کوئی معقول حل پیش کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شیرخوار بچے اور بچی کے پیشاب کی طہارت کے متعلق اہل علم کے ہاں تین مؤقف حسب ذیل ہیں:
1 شیر خوار بچے کے پیشاب پر چھینٹے مارے جائیں جبکہ بچی کا پیشاب اس عرصہ میں دھویا جائے۔
2 بچے اور بچی دونوں کے پیشاب پر چھینٹے مارے جائیں، بچی کے پیشاب کو دھونے کی ضرورت نہیں۔
3 بچے اور بچی کے پیشاب کو دھویا جائے، بچے کے پیشاب پر چھینٹے مارنے سے کام نہیں چلے گا۔
ہمارے رجحان کے مطابق پہلا موقف صحیح اور برحق ہے کیونکہ احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ حضر ت ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ وہ اپنے بچے کو لے کر (جو ابھی کھانا نہیں کھاتاتھا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اس بچے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا تو آپ نے پانی منگوایا اور اس پر چھینٹے مارے لیکن اسے دھویا نہیں۔ [1]
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بچہ لایا گیا، اس نے آپ پر پیشاب کر دیا تو آپ نے پانی منگوا کر اس پر پھینک دیا اور اسے دھویا نہیں۔ [2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ لڑکے کے پیشاب سے آلودہ کپڑے پر چھینٹے مارے جائیں اور لڑکی کے پیشاب سے آلودہ کپڑے کو دھویا جائے گا۔ [3]
اس کے علاوہ دیگر احادیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ لڑکے کے پیشاب پر چھینٹے مارے جائیں اور لڑکی کے پیشاب کو دھویا جائے گا، لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ شیرخوار بچے کا پیشاب پلید نہیں، بچی اور بچے کے پیشاب کی نجاست کے متعلق دو رائے نہیں ہیں۔ البتہ شریعت نے جس کپڑے کو پیشاب لگ جائے اس کے پاک کرنے کے متعلق بچے اور بچی کے پیشاب میں فرق ضرور رکھا ہے۔ جیسا کہ درج بالا احادیث میں اس امر کی صراحت ہے ، لیکن اس تفریق میں کیا حکمت کارفرما ہے اس کے متعلق احادیث خاموش ہیں البتہ شارحین حدیث نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق اس کی حکمت بیان کی ہے، چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ لڑکے کا پیشاب پانی اور مٹی سے ہے اور لڑکی کا پیشاب گوشت اور خون سے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو انہیں پانی اور مٹی سے پیدا کیا اور حضرت حوا علیہا السلام ان کی چھوٹی پسلی سے پیدا ہوئی ، گویا لڑکے کا پیشاب پانی اور مٹی سے وجود میں آیا جس سے آدم علیہ السلام بنے تھے اور لڑکی کا پیشاب خون اور گوشت سے پیدا ہوا جس سے حوا علیہا السلام کی تخلیق ہوئی تھی۔ [4]
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے تین اسباب بیان کئے ہیں ، جن کی تفصیل حسب ذیل ہیں:
٭بچے کا پیشاب ایک جگہ اکٹھا نہیں گرتا بلکہ وہ بکھر جاتا ہے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ اگر زہریلا مواد زیادہ جگہ پر پھیلا دیا جائے تو اس کے زہریلے اثرات کم ہو جاتے ہیں جبکہ بچی کا پیشاب ایک ہی جگہ گرتا ہے اور وہ زہریلے اثرات کے اعتبار سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے لہٰذا اسے دھو کر اس کے مضر اثرات سے بچا جا سکتا ہے۔
٭بچے کے پیشاب میں حرارت زیادہ اور بچی کے پیشاب میں رطوبت کی کثرت ہوتی ہے، حرارت کی وجہ سے بچے کے پیشاب کی بد بو کم ہو تی ہے لہٰذا اس پر چھینٹے مارے جاتے ہیں جبکہ رطوبت کی وجہ سے اس کی بدبو میں اضافہ ہوجاتا ہے اس لئے اسے دھویا جاتاہے۔[5]
ہم ان اسباب ووجوہ پرتبصرہ کرنے کے بجائے جدید طب کی روشنی میں اس کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بچے اور بچی کی جسمانی ساخت اور جنسی اعضاء کی بناوٹ بہت مختلف ہے، اس بناء پر پیشاب کا نظام تولید اور اس کا نظام اخراج بھی مختلف ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم میں ایک ایسا نظام بنایا ہےکہ وہ جو کچھ کھاتا پتیا ہے قدرتی طریقوں سے چھانا جاتا ہے پھر خوراک میں موجود مفید اجزاء کی ایک بڑی مقدار جزو بدن بن جاتی ہے اور غیر مفید یا نقصان دہ اجزاء الگ ہو کر باہر نکل جاتے ہیں، پھر نقصان دہ مائع اجزاء مثانے میں جمع ہو کر خارج ہوتے ہیں، طب جدید اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ مونث اپنے مثانے میں جمع شدہ مضر اجزاء کو پیشاب کی شکل میں ۷۵ فیصد حصہ خارج کرتی ہے اور خارج کر کے ایک ہی جگہ پر گرا دیتی ہے جس سے اس جگہ پر نقصان دہ خودرو جراثیم کی نشوو نما کا مددگار ماحول پیدا ہو جاتا ہے، اس لئے اسے غیر مدد گار ماحول بنانے کےلئے دھونا ضروری ہو جاتا ہے۔ جبکہ مذکر اپنے مثانے میں جمع شدہ پیشاب کا کم حصہ خارج کرتا ہے اور وہ کم مقدار بھی زیادہ جگہ پر پھیل جاتی ہے اس لئے جراثیم کی افزائش کے لئے مدد گار ماحول پیدا نہیں ہوتا، اسے مزید کمزور اور غیر مؤثر بنانے کے لئے متاثرہ مقام پر صرف چھینٹے مار دینے سے کام چل جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ طب جدید اس بات کو بھی تسلیم کرتی ہے کہ غذائی اجزاء کی توڑ پھوڑ کے نیچے کچھ زہریلے مرکبات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ پھر شیر خوار بچے کے متحرک نظام کی بدولت پیشاب میں زہریلے مواد خطرناک حد تک جمع نہیں ہوتے، وہاں چھینٹے مار کر ان کے زہر کو ختم کر دیا جاتا ہے جبکہ بچی کے اندر پیدا کردہ نظام بہت سست ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کے پیشاب میں زہریلے مادوں کا ارتکاز بڑھ جاتا ہے ۔ ان کے اثرات کو زائل کرنے کےلئے اسے دھونا پڑتا ہے۔ غالباً خواتین میں جوڑوں اور ہڈیوں کا درد اسی زہریلے مواد کی بناء پر بکثرت پایا جاتا ہے، طب جدید نے جن سر بستہ رازوں کو آج کھولا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان حق ترجمان سے آج سے چودہ سو سال قبل انکشاف کر دیا تھا کہ شیر خوار بچی کے پیشاب کو دھویا جائے اور بچے کے پیشاب پر چھینٹے مارنا ہی کافی ہے۔ ( واللہ اعلم )
[1] صحیح البخاري، الوضوء : ۲۲۳۔
[2] صحیح مسلم، الطھارة : ۲۸۶۔
[3] سنن أبي داؤد ، الطھارة: ۳۷۶۔
[4] ابن ماجہ، الطھارة تحت ح ۵۲۵۔
[5] اعلام الموقعین ص ۴۶ج۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب