السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
باریک جرابوں پر مسح کرنے کے متعلق شریعت کیا حکم دیتی ہے ، قرآن و حدیث میں مسح کے متعلق کیا شرائط ہیں کہ وہ جرابیں کس طرح کی ہوں ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عام طور پر جرابوں کے دو فائدے ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ وہ سردی وغیرہ سے بچاؤ کا کام دیں اور دوسرے یہ کہ گرد و غبار سے پاؤں محفوظ رکھیں جب تک جراب اس طرح کے دو فائدے دیتی رہتی ہے تو اس پر مسح کیا جا سکتا ہے اور اگر جراب اس قدر پھٹی ہوئی ہے کہ اسے پہن کر نہ سردی کا بچاؤ ہوتا ہے اورنہ ہی گرد و غبار سے پاؤں محفوظ رہتا ہے تو ایسی جراب پر مسح نہیں کرنا چاہیے، اس کے موٹے ہونے کے متعلق فقہ کی کتابوں میں جو معیار قائم کیا گیا ہے وہ ایجاد شدہ اور خود ساختہ ہے، قرآن و حدیث سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ جرابوں پر مسح کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہے ، چنانچہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیاتو اپنے جوتوں اور جرابوں پرمسح کیا۔ [1]
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ایک جنگی دستہ روانہ کیا، انہیں دوران سفر سخت سردی کا سامنا کرنا پڑا، جب وہ واپس آئے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا تذکرہ کیاتو آپ نے انہیں ایسی صورت حال کے پیش نظر پاؤں کے لفافوں یعنی موزوں اور جرابوں پر مسح کرنے کا حکم دیا۔[2]
کبار صحابہ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضر ت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے جرابوں پر مسح کرنا احادیث سے ثابت ہے، جب یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بلند مرتبہ صحابہ کرام سے ثابت ہے تو پھر جرابوں پر مسح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ واضح رہے کہ مقیم آدمی کےلئے ایک دن اور ایک رات جب کہ مسافر انسان کے لئے تین دن اور تین راتوں تک مسح کرنے کی اجازت ہے، اس کے لئے شرط یہ ہے کہ وضو کرنے کے بعد جرابوں کو پہنا جائے اور جب وضو ٹوٹ جائے تو مسح کی مدت کا آغاز ہو جاتا ہے یعنی وضو کرنے کے بعد پاؤں دھونے کے بجائے ان پر مسح کر لیا جائے۔ ( واللہ اعلم)
[1] سنن أبي داؤد ، الطھارۃ : ۱۵۹۔
[2] سنن أبي داؤد، الطھارۃ: ۱۴۶۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب