السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے معاشرہ میں کچھ لوگ ماہ صفر کو منحوس خیال کرتے ہیں ، خصوصاً اس کے ابتدائی تیرہ دنوں کو نحوست زدہ قرار دیا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ لوگ ان دنوں میں شادی بیاہ نہیں کرتے ، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کیا آیاہے، وضاحت کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
: قرآن و حدیث میں کہیں بھی ماہ صفر کو منحوس نہیں قرار دیا گیا اور نہ ہی اس مہینہ میں کسی نیک عمل کو کسی فضیلت کے ساتھ خاص کیا گیا ہے۔ اس بنا پر جو نیک اعمال عام دنوں میں کئے جاتے ہیں وہ اس ماہ میں بھی کئے جا سکتے ہیں، البتہ عام لوگوں میں ماہ صفر کے حوالے سے مختلف عقائد و نظریات پائے جاتے ہیں ۔ لوگ اس مہینہ کو منحوس خیال کرتے ہیں ، خاص طور پر ابتدائی تیرہ دنوں کو ’’ تیرہ تیزی‘‘ کہا جاتا ہے، ان دنوں میں کسی قسم کی خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ماہ مبارک کے متعلق واضح طور پر فرمایا ہے: ’’ماہ صفر منحوس مہینہ نہیں۔‘‘[1]
شارحین حدیث نے اس حدیث کی وضاحت میں مختلف خیالات کا اظہارکیا ہے ، چنانچہ راوی حدیث محمد بن راشد کہتے ہیں کہ اہل جاہلیت ماہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نفی فرما دی۔ [2]
بعض اہل علم کے نزدیک اس سے مراد پیٹ کا درد ہے، چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’ صفر کی کوئی حقیقت نہیں اور یہ پیٹ کا درد ہے۔‘‘[3]
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے اس کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ دور جاہلیت میں لوگ ماہ صفر کو ایک سال حلال قرار دے لیتے تھے اور ایک سال حرام ٹھہراتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ماہ صفر میں تبدیلی صحیح نہیں۔ ‘‘[4]
بہر حال ہمارے ہاں ماہ صفر سے متعلق جو عقائد و نظریات پائے جاتے ہیں ، ان کی شریعت میں کوئی حقیقت نہیں بلکہ وہ سب خود ساختہ اور بناوٹی ہیں۔ اسلام ان کی پرزور تردید کرتا ہے ، لہٰذا ہمیں معاشرتی توہمات سے متاثر نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اس مہینے کو منحوس خیال کر کے کسی اہم کام سے باز رہنا چاہے، بلکہ اللہ پر توکل کرتے ہوئے ہر وہ کام کرنا چاہیے جو دیگر مہینوں میں کیا جاتا ہے، واضح رہے کہ ماہ صفر کے آخری بدھ کو ہمارے ہاں ’’ یوم غسل صحت ‘‘ منایا جاتا ہے اور شیرینی تقسیم کی جاتی ہے، شریعت میں اس کی بھی کوئی حقیقت نہیں۔ ( واللہ اعلم)
[1] صحیح البخاري، الطب : ۵۷۵۷۔
[2] سنن أبي داؤد ، الطب : ۳۹۱۶۔
[3] صحیح البخاري، الطب باب ۲۵۔
[4] سنن أبي داؤد ، الطب : ۳۹۱۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب