سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1) نذر ماننا

  • 20262
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1688

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے بھائی نے نذر مانی تھی کہ اگر میرے ہاں بچہ پیدا ہوا تو میں مسجد کے نمازیوں کی سہولت کے لئے گرم پانی کا گیزر لگاؤں گا،اب وہ اپنی نذر کو پورا کرنا چاہتا ہے لیکن مسجد کی انتظامیہ گیزر لگانے پر آمادہ نہیں، ان کا کہنا ہے کہ مسجد میں کارپٹ بچھا دیا جائے ، کیا نظر کی جہت تبدیل کرنا جائز ہے، کتاب و سنت کے حوالے سے جواب دیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام میں مشروط نذر ماننے کی ممانعت آئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ نذر، اللہ کی تقدیر کو ذرہ بھر بھی نہیں پھیر سکتی، البتہ اس کی وجہ سے بخیل آدمی سے کچھ مال برآمد ہو جاتا ہے۔ [1]

مشروط نذر کی ممانعت اس لئے ہے کہ کچھ لوگ بیمار ہونے ، نقصان اٹھانے یا کسی بھی طرح کی کوئی تکلیف آنے پر صدقہ کرنے کی نذر مانتے ہیں اور ان کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نذر مانے بغیر نہ تو انہیں شفا دے گا اور نہ ان کا نقصان پورا کرے گا، اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندے کی نذر سے اپنے قضا و قدر کے فیصلے تبدیل نہیں کرتا ، ہاں اس کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ بخیل آدمی سے کچھ مال نکل آتا ہے ، یعنی انسان اللہ تعالیٰ سے مقصد بر آوری کا معاملہ کرتا ہے اور اس سے کچھ پیشگی لینے پر دینے کےلئے آمادہ ہوتا ہے، اس بناء پر مشروط نذر ماننےکے بجائے مطلق نذر مانی جائے، اگر اللہ کے فیصلے کے مطابق اسے کچھ ملناہے تو مل جائے گاالبتہ انسان بخل کی تہمت سے بچ جائے گا۔

نذر کی جہت بدلنے کے متعلق ہمارا موقف یہ ہے کہ جب انسان کسی چیز کی نذر مان لے اور پھر یہ سمجھےکہ اس نذر کے علاوہ کوئی اور چیز اس سے افضل اور لوگوں کے لئے زیادہ مفید ہے تو اس صورت میں نذر کی جہت تبدیل کرنے میں چنداں حرج نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہےکہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا : ’’ میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے مکہ فتح کر دیا تو میں بیت المقدس میں نفل ادا کروں گا۔‘‘ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بیت اللہ میں ہی نفل ادا کر لو، اس نے پھر وہی بات دھرائی تو آپ نے بھی وہی جواب دیا، اس نے پھر وہی بات کی تو آپ نے فرمایا: پھر جیسے تیری مرضی ہو اسی طرح کر لے۔[2]

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان ادنیٰ درجے کی نذر کو اعلیٰ درجے کی نذر سے بدل سکتا ہے اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں، صورت مسؤلہ میں اس نے اپنے محلے کی مسجد میں نمازیوں کی سہولت کے لیے گیزر لگانے کی نذر مانی تھی لیکن مسجد کی انتظامیہ نے گیس وغیرہ کے بل کی وجہ سے کہہ دیا ہو گا کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ، آپ مسجد میں کارپٹ بچھا دیں، اس صورت میں نذر کی جہت تبدیل کی جا سکتی ہے، آدمی کو چاہیے کہ وہ مسجد میں گیزر لگانے کے بجائے کارپٹ بچھانے کا اہتمام کر دے۔ ایسا کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں بلکہ اس سے نمازیوں کو زیادہ فائدہ ہو گا، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ثواب بھی زیادہ عطا فرمائیں گے۔ ( واللہ اعلم)


[1] صحیح البخاري ، القدر ، ۶۶۰۸۔

[2] مسند أحمد ۳۶۳ج۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:42

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ