السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جو اہل کار سرکاری طور پر کسی کام کے لیے تعینات ہوتے ہیں، ان کو تحفہ وغیرہ دینا اور ان کے تحائف قبول کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟ تفصیل سے ہماری راہنمائی فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سرکاری طور پر جو آدمی کسی کام کے لیے تعینات ہے اور اسے باقاعدہ اس کام کی تنخواہ ملتی ہے تو ایسے لوگوں کو تحائف دینا اور ان کے تحائف قبول کرنا ناجائز اور حرام ہے کیونکہ وہ اس کام کی باقاعدہ تنخواہ لیتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس شخص کو ہم کسی کام پر تعینات کریں اور ہم اسے اس کام کا مقررہ معاوضہ بھی دیں تو پھر وہ جو کچھ بھی اس تنخواہ کے علاوہ لے گا وہ خیانت ہو گی۔‘‘ [1]
سرکاری اہل کار کو چاہیے کہ وہ دیانت داری کے ساتھ اپنا کام سر انجام دے، اس پر وہ کسی قسم کا تحفہ قبول نہ کرے کیونکہ ایسا کرنا رشوت اور خیانت میں شامل ہے ہاں اگر تحفہ کسی غرض کے بغیر ہو اور اسے عہدہ سے پہلے بھی تحفہ دیا جاتا تھا تو اسے قبول کرنے میں چنداں حرج نہیں ہے، اگر ایسا نہیں ہے تو لازماً تحفہ دینے والا سرکاری اہل کار کو اپنی طرف مائل کر کے اپنے مقاصد کو اس کے ذریعے پورا کرنا چاہتا ہے اور اپنے حق میں فیصلہ کرانا چاہتا ہے۔ لہٰذا ایسے حالات میں سرکاری اہل کار کو تحفہ دینے اور اسے قبول کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے بھائی کی سفارش کرے پھر اسے تحائف دیے جائیں اور وہ انہیں قبول کرے تو یہ سود کے دروازوں میں سے ایک بڑے دروازے کو آیا ہے۔ [2]
لہٰذا ایسے حالات میں تحائف دینے اور لینے سے اجتناب برتنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)
[1] ابوداود، البیوع: ۲۹۴۳۔
[2] ابوداود، البیوع: ۳۵۴۱۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب