سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(606) مال کی حفاظت میں مارا جانا

  • 20255
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1544

سوال

(606) مال کی حفاظت میں مارا جانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے گھر میں ڈاکو آ گئے، میرے بیٹے نے ہمارا اور ہمارے مال کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان اللہ کے حوالے کردی، اسے گولی لگی وہ اسی وقت اللہ کو پیارا ہو گیا، ایسی موت کے متعلق شرعی طور پر کیا حکم ہے؟ قرآن و حدیث کے مطابق فتویٰ دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کاش کہ ہمارا ملک امن کا گہوارہ ہوتا لیکن ہر طرف جنگل کا قانون ہے، یہاں نہ کسی کی جان محفوظ ہے اور نہ ہی کسی کے مال کی حفاظت کی جاتی ہے، ڈاکو جب چاہتے ہیں جسے چاہتے ہیں لوٹ لیتے ہیں، افسوس یہ ہے کہ ہمارے محافظ ان کے ساتھ ملے ہوتے ہیں،ایسے حالات میں نہایت حکمت عملی کے ساتھ کوئی اقدام کرنا چاہیے۔ قرآن و حدیث کے مطابق اپنی جان، اپنے مال، اہل و عیال اور عزت و دین کے دفاع میں مارے جانا شہادت کی موت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا وہ شہید ہے، جو اپنے اہل و عیال کے دفاع میں قتل کر دیا گیا وہ بھی شہید ہے، جو اپنا دین بچاتے ہوئے مارا گیا وہ بھی شہید ہے اور جو اپنی جان بچاتے ہوئے قتل کر دیا گیا وہ بھی شہید ہے۔‘‘ [1]

 فقہی اصطلاح میں اس قسم کی شہادت کو شہادتِ صغریٰ کہتے ہیں، البتہ شہادت کبریٰ یہ ہے کہ جو مجاہد میدان کارزار میں اللہ کے دین کو بلند کرنے کا عزم لے کر اپنی جان اللہ کے حوالے کر دے، صورت مسؤلہ میں نوجوان نے اہل خانہ اور اہل خانہ کے مال کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان اللہ کے سپرد کی ہے، حدیث بالا کے مطابق وہ شہید ہے لیکن اس قسم کی شہادت اس انسان کے لیے کارآمد ہے جس کا عقیدہ صحیح ہو، اگر عقیدہ خراب ہے تو شہادت کبریٰ بھی اس کے کام نہیں آ سکے گی، اللہ تعالیٰ ہماری اور ہمارے اموال کی حفاظت فرمائے۔ آمین!۔


[1]  ابوداود، السنة: ۴۷۷۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:503

محدث فتویٰ

تبصرے