السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شرعی طور پر عاشوراء محرم کی کیا حیثیت ہے، اس دن کھانے پینے کا خوب اہتمام کیا جاتا ہے پھر دودھ کی سبیلیں بھی لگائی جاتی ہیں، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اس کے روزہ کی کیا فضیلت ہے اور یہ روزہ کس دن رکھنا چاہیے، کیا نویں یا دسویں محرم یا دونوں کا روزہ رکھنا ہو گا؟ وضاحت تحریر کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
محرم کا مہینہ اللہ کے ہاں بڑی قدر و منزلت کا حامل ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے عزت و احترام والا مہینہ قرار دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کے روزے اور رمضان کے روزوں کو دوسرے دنوں پر بڑی فضیلت دیتے تھے اور بڑے اہتمام کے ساتھ اس کا روزہ رکھتے تھے۔ [1]
لیکن ہم لوگوں نے اس دن کے حوالے سے بہت سی بدعات جاری کر لی ہیں اور اسے کھانے پینے کا دن سمجھ لیا ہے، اس دن بڑے اہتمام سے خصوصی کھانوں کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ میٹھے پانی اور دودھ کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جشن بہاراں ہے جسے بڑے شوق سے منایا جاتا ہے، نامعلوم یہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا غم ہے یا ان کی شہادت کا جشن ہے جسے بڑے زور و شور سے ہم مسلمان مناتے ہیں؟
زمانہ قدیم سے اس دن کی اہمیت مسلمہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی اور فرعون اور اس کے لشکر کو پانی میں غرق کیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور قوم یہود اس آزادی کی خوشی میں روزہ رکھتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس دن کا روزہ رکھا اور دوسرے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ بھی اس دن کا روزہ رکھیں، جیسا کہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہود عاشوراء کے دن کو جشن کے طور پر مناتے تھے اور اس دن اپنی عورتوں کو خصوصی طور پر زیورات پہنا کر خوشی مناتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس دن کا روزہ رکھا کرو۔‘‘ [2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے روزے ہیں کیونکہ ماہ محرم اللہ کا مہینہ ہے اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز یعنی تہجدہے یہ نماز بہت فضیلت والی ہے۔ [3]
سیدہ ربیع بنت معوذرضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے آس پاس رہنے والوں کو یہ حکم دیا کہ وہ یوم عاشوراء کا روزہ رکھیں چنانچہ ہم خود بھی روزہ رکھتیں اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتیں، جب بھوک کی وجہ سے بچے روتے تو ہم ان کے سامنے کھلونے رکھ دیتیں تاکہ ان کے ساتھ دل بہلاتے رہیں۔ [4]
بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق باقاعدہ اعلان کرایا کہ جس شخص نے اس دن کا روزہ رکھا ہے وہ تو اپنا روزہ پورا کرے اور جس نے روزہ نہیں رکھا وہ بقیہ دن کچھ نہ کھائے پیئے۔ [5]
جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیاری روزہ قرار دے دیا، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ دورِ جاہلیت میں قریش عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کا روزہ رکھتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس دن کا روزہ رکھنے کے متعلق حکم دیتے تھے، اس کے بعد جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ نے اس کے متعلق اختیار دیا اور فرمایا: ’’جس کا جی چاہے وہ اس دن کا روزہ رکھ لے اور جو چاہے وہ روزہ چھوڑ دے۔‘‘ [6]
احادیث میں اس دن روزہ رکھنے کی فضیلت بھی بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم عاشوراء کے روزے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس دن کا روزہ پچھلے ایک سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ [7]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ کسی کام کے متعلق اللہ کی طرف سے امر نہ دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی موافقت کو پسند کرتے تھے۔ [8]
پھر آپ کو اہل کتاب کی مخالفت کرنے کا حکم دیا گیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہود و نصاریٰ بھی اس محرم کی تعظیم بجا لاتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے روزے کے متعلق بھی ان کی مخالفت کرنے کا عزم کر لیا چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو ان حضرات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ اس دن کی تو یہود و نصاریٰ بھی تعظیم کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’جب آیندہ سال آئے گا تو ان شاء اللہ ہم نو محرم کا روزہ بھی رکھیں گے۔‘‘ لیکن اگلا سال آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں آیندہ سال زندہ رہا تو نویں کا روزہ بھی رکھوں گا۔‘‘ [9]
اس حدیث سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرتے ہوئے دسویں محرم کے ساتھ نویں محرم کا روزہ بھی رکھا جائے کیونکہ عاشوراء تو دسویں تاریخ کو ہے، اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ دسویں کے بجائے صرف نویں محرم کاروزہ رکھا جائے۔ اس سلسلہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ایک عمل کا سہارا لیا جاتا ہے حالانکہ انہوں نے خود فرمایا ہے: ’’یہود کی مخالفت کرو، نویں اور دسویں محرم کا روزہ رکھو۔‘‘ اس طرح کہ اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک دن بعد روزہ رکھو۔‘‘[10]
اس حدیث کے پیش نظر کچھ اہل علم کا مؤقف ہے کہ جو شخص نو محرم کا روزہ نہ رکھ سکے وہ دس محرم کا روزہ رکھنے کے بعد یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرتے ہوئے گیارہ محرم کا روزہ رکھ لے۔ ہمارے رجحان کے مطابق دسویں محرم کا روزہ کسی صورت میں نہ ترک کیا جائے البتہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت میں اس کے ساتھ نویں تاریخ کا روزہ رکھ لیا جائے، اگر کوئی نویں محرم کا روزہ نہیں رکھ سکا تو وہ دسویں محرم کے ساتھ گیارہ محرم کا روزہ رکھ لے۔ (واللہ اعلم)
[1] صحیح بخاری، الصوم: ۲۰۰۶۔
[2] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۶۰۔
[3] مسند امام احمد،ص: ۳۴۴،ج۲۔
[4] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۶۹۔
[5] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۶۹۔
[6] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۳۷۔
[7] صحیح مسلم، الصیام:۲۷۴۷۔
[8] صحیح بخاری، اللباس: ۵۹۱۷۔
[9] صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۶۶۷۔
[10] مسند امام احمد،ص: ۲۴۱،ج۱۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب