السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دینی پروگرام کرنے کے لیے کوئی خاص دن یا خاص وقت مقرر کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے جب کہ دیگر مکاتب فکر ان دنوں خرافات و بدعات کی محفلیں منعقد کرتے ہوں مثلاً، ۹،۱۰ محرم اور ۱۲ربیع الاوّل کے دن دینی پروگرام کرنا پھر اس دن اہل محفل کو شربت پلانا اور کھانے کا اہتمام کرنا، ان دنوں تقاریر کا اہتمام کرنا جائز ہے یا شریعت میں ایسا کرنا ناجائز ہے؟کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دینی پروگرام منعقد کرنے کی دو صورتیں حسب ذیل ہیں:
1) سامعین کی سہولت یا فرصت کے پیش نظر دن یا وقت یا جگہ کا تعین کرنا مثلاً اتوار کے دن عام لوگوں کو چھٹی ہوتی ہے یا نماز عشاء کے بعد وقت فارغ ہوتا ہے یا کسی ہال میں سامعین باسہولت آ سکتے ہیں تو ایسے حالات میں دن، وقت یا جگہ کا تعین کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ مستحسن امر ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو وعظ و نصیحت کے لیے جمعرات کا دن مقرر کیا تھا۔ چنانچہ حضرت ابو وائل کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کے دن لوگوں کو وعظ و نصیحت فرماتے تھے تو ایک آدمی نے کہا: اے ابو عبدالرحمٰن! ہماری خواہش ہے کہ آپ ہمیں ہر دن وعظ کیا کریں، انہوں نے فرمایا کہ میں تمہاری اکتاہٹ کو ناپسند کرتا ہوں، اور وعظ کے لیے میں تمہارا خیال رکھتا ہوں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا خیال رکھتے تھے، مبادا ہم اکتا جائیں۔[1]
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’جو تشنگان علم کے لیے دن مقرر کر لے تو جائز ہے۔‘‘
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو وعظ کرنے کے لیے مخصوص جگہ اور مخصوص وقت طے کیا ہوا تھا جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث میں اس کی صراحت کی ہے۔[2] بہرحال مخصوص حالات میں وعظ و نصیحت کے لیے دن مقرر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
2) اہل بدعت نے اپنی بدعات و خرافات کے رواج کے لیے مخصوص مقامات اور دن مقرر کیے ہیں، وہ دن یا مقامات ان کے لیے شعار کی حیثیت رکھتے ہیں مثلاً: مرنے کے بعد تیسرے، ساتویں اور چالیسویں دن کو ہمارے ہاں میت کے ایصال ثواب کے لیے خاص رسومات قرآن خوانی اور ختم وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
محرم کی نویں اور دسویں نیز ربیع الاول کی بارہ تاریخ میں ایک مخصوص طبقہ خرافات و بدعات کی محافل منعقد کرتا ہے اور ان محافل میں شرک و بدعت کی تعلیم دیتا ہے پھر ان دنوں کھانے اور شربت پلانے کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں لوگوں کو بیدار رکھنے کے لیے مسجد میں چراغاں کیا جاتا ہے پھر عبادت گزار حضرات کو مصروف رکھنے کے لیے اجتماعی محفل ذکر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
ان دنوں اہل حق کو چاہیے کہ اہل بدعت کا طرز عمل اختیار نہ کریں بلکہ وعظ کرنے کے لیے ان دنوں کے علاوہ دوسرے ایام کا انتخاب کریں، بلکہ ایسا کرنے سے ان کی پوری پوری مشابہت ہوتی ہے، پھر عام آدمی کو ان دنوں میں بدعات کے ارتکاب کی دلیل مل جاتی ہے، کیونکہ اہل حق ان دنوں تقریر کرتے ہیں جب کہ اہل بدعت ان دنوں ختم اور قرآن خوانی کا اہتمام کرتے ہیں۔ قرآن پڑھنا اچھی چیز ہے لیکن اس کے لیے ایک خاص طریقہ اور دن کی تعیین بدعت کے زمرہ میں آتی ہے، اس بنا پر ہم کہتے ہیں کہ ان دنوں قرآن پڑھنے کا عمل محل نظر ہے پھر جس انداز اور اسلوب سے ان محافل میں پڑھا جاتا ہے۔ شرعی اعتبار سے وہ انتہائی قابل اعتراض ہے، جب ان دنوں اجتماعی ذکر یا قرآن خوانی جائز نہیں تو تقریر کرنا کیونکر جائز ہو سکتا ہے؟ جب کہ تقاریر کے لیے بھی اس طرح کا اہتمام کیا جاتا ہے جس طرح اہل بدعت اپنی بدعات کے رواج کے لیے کرتے ہیں، جیسا کہ لوگ مزاروں پر غیر اللہ کے نام کی دیگیں چڑھاتے ہیں، ہم وہاں جا کر اللہ کے نام کی خیرات کریں تو شریعت نے اسے پسند نہیں فرمایا کیونکہ ایسا کرنے میں اہل بدعت کی مشابہت پائی جاتی ہے، چنانچہ حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بوانہ مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا او رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا وہاں دورِ جاہلیت کا کوئی بت تھا جس کی پوجا پاٹ کی جاتی ہو؟‘‘ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہاں اس طرح کی کوئی چیز نہ تھی او رنہ اب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا وہاں دورِ جاہلیت کی عیدوں میں سے کوئی عید منائی جاتی تھی؟‘‘ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہاں کوئی جشن یا عید کا اہتمام نہیں ہوتا، اس وضاحت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جاؤ وہاں اپنی نذر پوری کرو کیونکہ اللہ کی نافرمانی میں نذر کا پورا کرنا ضروری نہیں اور نہ ہی اس میں جس کا انسان مالک نہیں۔‘‘ [3]
[1] ابوداود، الایمان والنذور: ۳۳۱۳۔
[2] ترمذی:۶۷۔
[3] صحیح بخاری، العلم: ۷۰۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب