سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(598) چوتھی دفعہ شراب نوشی کرنے پر قتل کرنا

  • 20247
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 865

سوال

(598) چوتھی دفعہ شراب نوشی کرنے پر قتل کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے ایک دوست نے پوچھا ہے کہ چوتھی مرتبہ شراب نوشی کرنے پر قتل کر دینے کا ذکر احادیث میں ہے، اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی کریں کہ آیا واقعی ایسے شرابی کو قتل کر دینے کا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کوئی شراب نوشی کرے تو اسے کوڑے مارو، دوسری مرتبہ شراب پیئے تو پھر کوڑے لگاؤ، پھر تیسری مرتبہ شراب نوشی کرے تو پھر کوڑے لگاؤ مگر جب چوتھی مرتبہ شراب نوشی کرے تو اس کی گردن اڑاد۔[1] لیکن چوتھی مرتبہ شراب پینے پر قتل کا حکم منسوخ ہے، چنانچہ اس حدیث کے بعد امام ترمذی فرماتے ہیں ’’شراب پینے والے کو قتل کرنے کا حکم پہلے تھا، اب منسوخ ہو چکا ہے، اسی موقف پر عام اہل علم ہیں، ہم ان کے درمیان کسی اختلاف کو نہیں جانتے اور اس مسئلے کی مزید تاکید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی منقول ہے کہ ’’مسلمان کا خون تین چیزوں کے علاوہ حلال نہیں ہے، ایک جان کے بدلے جان، دوسرے شادی شدہ زانی اور تیسرے مرتد۔‘‘[2]امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شراب پینے والا لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔[3]اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر کوئی شراب پیئے تو اسے کوڑے لگاؤ اور اگر چوتھی مرتبہ پیئے تو اسے قتل کر دو۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے شراب پی رکھی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مارا لیکن قتل نہیں کیا۔[4] البتہ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا مؤقف ہے کہ چوتھی مرتبہ شراب پینے پر اسے قتل کر دیا جائے، لیکن جمہور اہل علم کا مؤقف ہے کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ قتل کا حکم منسوخ ہے۔[5]


[1] مسند امام احمد،ص: ۵۱۹،ج۲۔ 

[2]  ترمذی حدیث :۱۴۴۴۔        

[3]  مسند امام احمد،ص: ۲۹۱،ج۲۔

[4] بیہقی، ص: ۳۱۴،ج۷۔             

[5] نیل الاوطار، ص:۶۰۴،ج۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:494

محدث فتویٰ

تبصرے