السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کرسمس کے موقع پر عیسائیوں کو تحائف وغیرہ دینے کی شرعاً گنجائش ہے یا انہیں ایسے موقع پر کچھ نہ دیا جائے، جب کہ وہ ہمیں اسلامی تہوار کے موقع پر تحائف دیتے ہیں، قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مشرکین اور کفا رکی دو اقسام ہیں: 1)جو کھلے بندوں مسلمانوں سے دشمنی کرتے ہیں، 2)جو کفر و شرک پر رہتے ہوئے مسلمانوں سے دشمنی نہیں کرتے۔
سورۃ ممتحنہ آیت۸،۹ میں ان دونوں اقسام کی تفصیل بیان کی گئی ہے، جو کافر اور مشرک خواہ وہ اہل کتاب ہی کیوں نہ ہوں مسلمانوں سے کھلے طور پر دشمنی رکھتے ہیں، انہیں تحائف دینا یا ان سے تحائف لینا شرعاً جائز نہیں کیونکہ ان سے محبت اور تعلق خاطر کا اظہار مقصود ہوتا ہے اور ایسے کفار و مشرکین سے دوستی اور موالات سے منع کیا گیاہے، کہ دوسری قسم کے کفار و مشرکین سے حسن سلوک اور رواداری کرنے کی اجازت ہے، انہیں تحائف دئیے جا سکتے ہیں اور ان سے تحائف لینے کی بھی اجازت ہے جیسا کہ درج ذیل واقعات سے معلوم ہوتا ہے۔
٭ فروہ جذامی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خچر بطور ہدیہ دیا تھا اور آپ نے حنین کے دن اس پر سواری کی تھی۔ [1]
٭ دومتہ الجندل کے سردار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ریشمی جبہ بطور ہدیہ دیا تھا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا۔ [2]
٭ غزوۂ خیبر کے موقع پر ایک یہودی عورت نے زہر آلود بکری بطور ہدیہ دی تھی جو بطور دعوت پیش کی گئی، آپ نے اس دعوت کو قبول فرمایا۔ [3]
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایران کے بادشاہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ بھیجا تو آپ نے اسے قبول فرمایا، روم کے بادشاہ نے آپ کو تحفہ بھیجا تو آپ نے اسے بھی قبول فرمایا، اسی طرح مختلف بادشاہوں نے آپ کو تحائف بھیجے آپ نے ان سب کو قبول فرمایا۔ [4]
صورت مسؤلہ میں کرسمس کے موقع پر عیسائیوں کو کوئی تحفہ دینا ان کے تہوار میں شریک ہونا ہے ایسے حالات میں انہیں کوئی تحفہ نہ دیا جائے تاکہ انہیں اپنے باطل مذہب پر قائم رہنے کی حوصلہ افزائی نہ ہو اور نہ ہی ان سے تحائف لینے چاہئیں چونکہ ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مشرکین کی میل کچیل سے منع کیا گیا ہے۔‘‘ آپ نے یہ اس وقت فرمایا تھا جب عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ نے حالتِ شرک میں آپ کو ایک اونٹنی بطور ہدیہ دینے کی پیشکش کی تھی۔ [5]
ہمارے نزدیک مذکورہ احادیث میں تطبیق کی بھی صورت معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کا ہدیہ قبول کرنے سے انکار کیا جو اپنے ہدیے کے ذریعے محض دوستی اور اظہار محبت چاہتا تھا اورآپ نے ان لوگوں کے ہدیے قبول فرمائے جن سے امید تھی کہ وہ اسلام کی طرف مائل ہو جائیں گے اور ان کے دلوں میں اسلام کی محبت و الفت اتر جائے گی، اس کے قومی تہوار کے موقع پر انہیں ہدیہ دینا یا اپنے قومی تہوار کے موقع پر غیر مسلم حضرات کے ہدایا قبول کرتے وقت مذکورہ بالا امر کو ضرور ملحوظ رکھا جائے، بہرحال ہم اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ قومی تہوار کے علاوہ دونوں میں تحائف کا تبادلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ محض اظہار محبت مقصود نہ ہو بلکہ انہیں اسلام سے مانوس کرنا پیش نظر ہو۔ (واللہ اعلم)
[1] صحیح مسلم، الجہادو السیر: ۱۷۷۵۔
[2] صحیح بخاری، الھبہ: ۲۶۱۵۔
[3] صحیح بخاری، الھبہ: ۲۶۱۷۔
[4] ترمذی، السیر: ۱۵۷۲۔
[5] ابوداود، الخراج: ۳۰۵۷۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب