السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں کسی وجہ سے سنٹرل جیل ساہیوال میں ہوں، یہاں پر رشوت، جھوٹ، فراڈ، دھوکہ دہی اور شیطنت برسر عام چلتی ہے، ازراہ کرم مجھے آگاہ فرمائیں کہ یہاں زندگی کیسے بسر کی جائے؟نیز درج ذیل باتوں کی وضاحت کر دیں، یہاں کہا جاتا ہے کہ: (الف) جیل دنیاکی دوزخ ہے، (ب) یہاں کوئی نماز نہیں اور نہ ہی گالی دینا جرم ہے۔ (ج) 302 ایک ایسا جرم ہے اگر اسے درخت کے ساتھ لگا دیا جائے تو وہ بھی سوکھ جاتا ہے، میں نے یہ بھی سنا کہ جیل کے کارندے دوزخی ہیں۔ ان تمام باتوں کی کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کر دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واقعی جیل کی زندگی بہتعجیب اور سبق آموز ہوتی ہے چونکہ راقم الحروف نے خود پندرہ دن تک کیمپ جیل لاہور کی ہوا کھائی ہے اس لیے عملی تجربہ ہوا کہ وہاں رشوت، جھوٹ اور فراڈ وغیرہ عام ہوتا ہے۔ ہوا یوں کہ جامعہ سلفیہ سے فراغت کے بعد مدینہ یونیورسٹی حصول تعلیم کے لیے جانا تھا کچھ وقت فارغ تھا اس لیے مدرسہ رحمانیہ گارڈن ٹاؤن میں تدریس کا شعبہ سنبھال لیا۔ مدرسہ کے کونے میں بریلوی حضرات کی مسجد تھی، اہل مدرسہ اس مسجد پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے کیر کلاں کے چند لوگوں کی خدمات حاصل کر لی گئیں، انہوں نے ہوائی فائرنگ کی تو محلے کے لوگ باہر نکل آئے، پولیس کو پتہ چلا اور انہوں نے کارروائی کی جس کے نتیجہ میں راقم الحروف کو بھی ساتھ دھر لیا گیا۔ ہمیں ایک دن وحدت روڈ تھانے میں رکھا گیا پھر چالان کر کے کیمپ جیل پہنچا دیا، اس طرح جیل کے اندرونی ماحول کو دیکھنے کا موقع ملا اور پندرہ دن اپنے ناکردہ گناہ کی سزا بھگتنا پڑی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غالباً جیل کے کارندوں کے متعلق فرمایا ہے: ’’لوگوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جو اہل جہنم ہیں لیکن میں نے انہیں ابھی تک نہیں دیکھا ہے ان میں سے ایک وہ ہیں جن کے ہاتھوں میں بیلوں کی دموں کی طرح کوڑے ہوں گے اور وہ ان کے ذریعے لوگوں کو پیٹیں گے۔‘‘ [1]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں مزید وضاحت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ! اگر تیری زندگی نے تیرا ساتھ دیا توتو ایسے لوگوں کو دیکھے گا جن کے ہاتھوں میں بیلوں کی دموں کی طرح کوڑے ہوں گے وہ اللہ کے غضب میں صبح کریں گے اور اللہ کی ناراضگی میں ان کی شام ہو گی۔ [2]
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ وہ اللہ کی ناراضگی میں صبح کریں گے اور اس کی لعنت میں ان کی شام ہو گی۔[3]
ہمارے ذاتی رجحان کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن سخت دل لوگوں کی نشاندہی کی ہے اس سے مراد جیل کے کارندے اور پولیس والے ہیں جو بلاوجہ لوگوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہیں، چنانچہ جیل میں ہم نے ایک دفعہ صبح کی نماز مسجد میں ادا کرنے کا پروگرام بنایا جب کہ اس وقت حاضری اور جیل کے اندر کام تقسیم ہوتے تھے، ہماری قطار جب مسجد کی طرف جانے لگی تو ان ظالموں نے بارش کی طرح ہم پر لاٹھیاں برسانا شروع کر دیں اور وہ ہانک کر گول چکر لے گئے جہاں حاضری لگائی جاتی تھی، ایسے حالات میں انسان کو حکمت عملی سے کام لینا چاہیے اور اللہ کے دین کو پھیلانے کے لیے کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ سائل چونکہ دارالحدیث اوکاڑہ سے فارغ التحصیل ہے اس لیے جیل میں درس قرآن کی داغ بیل ڈال دی جائے، اس کے اثرات بہت اچھے ہوں گے جس کا ہمیں عملی تجربہ ہوا ہے۔ چنانچہ میں نے جیل کے اندر مسجد میں جماعت اور درس قرآن اپنے ذمے لے لیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صبح کی حاضری اور صفائی وغیرہ سےمجھے مستثنیٰ کر دیا گیا، اللہ تعالیٰ نے پندرہ دن کے بعد ضمانت کا بندوبست کر دیا۔ وللہ الحمد اولا و آخرا
اب سائل کے سوالات کا ترتیب وار جواب دیا جاتا ہے۔
1) موحدین کے لیے جیل میں جانا سنت یوسف علیہ السلام ہے، وہاں توحید کی نشر و اشاعت کی جائے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس فریضہ کو ادا کیا تھا۔
2) جیل، دنیا کی دوزخ نہیں ہے بلکہ انسان یہاں آزمائش سے دو چار ہوتا ہے اگر اپنے آپ پر کنٹرول رکھے تو کندن بن کر باہر نکلتا ہے۔
3) جیل میں نمازوں کی پابندی کی جائے اور گالی گلوچ سے پرہیز کیا جائے، اگرچہ وہاں کا ماحول بہت گندہ ہوتا ہے تاہم انسان خود کو اس ماحول سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
4) دفعہ302 قاتل پر لگائی جاتی ہے یہ جرم واقعی بہت سنگین ہے، سزا کے طور پر ممکن ہے کہ قاتل کو بھی تختہ دار پر لٹکا دیا جائے الا یہ کہ مدعی حضرات سے صلح ہو جائے یا اللہ تعالیٰ کوئی اور راستہ نکال دے۔
5) جیل کے کارندے واقعی بہت سخت ہوتے ہیں اور قیدیوں کو تختہ مشق بناتے رہتے ہیں‘ ان کے متعلق ہم نے اپنا رجحان پہلے بیان کر دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ سائل کو رہائی دے اور اس کے لیے ذرائع و اسباب پیدا کرے نیز وہ مقتول کے ورثاء کو صلح پر آمادہ کر دے تاکہ برخوردار کی رہائی کا راستہ ہموار ہو جائے۔ (واللہ اعلم)
[1] صحیح مسلم، اللباس: ۵۵۸۲۔
[2] صحیح مسلم، الجنۃ: ۷۱۹۵۔
[3] صحیح مسلم، الجنۃ: ۷۱۹۶۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب