سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(591) سیہہ کا حلال ہونا

  • 20240
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 955

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’سیہہ‘‘ کو خبیث قرار دیا ہے اور کیا یہ اس بنا پر حرام ہے؟ وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’سیہہ‘‘ کو خبیث نہیں کہا او رنہ ہی اسے حرام قرار دیا ہے، البتہ ایک روایت میں اس کی تفصیل کچھ اس طرح بیان ہوئی ہے کہ نمیلہ فزاری سے روایت ہے کہ اس نے کہا میں حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ کے پاس تھا، ان سے سیہہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے یہ آیت پڑھی:

﴿قُلْ لَّاۤ اَجِدُ فِيْ مَاۤ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰى طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗۤ اِلَّاۤ اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ١ۚ﴾[1]

’’آپ ان سے کہہ دیں کہ جو وحی میری طرف آئی ہے میں تو اس میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا ہوں جو کھانے والے پر حرام کی گئی ہو، الا یہ کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون یا خنزیر کا گوشت، کیونکہ وہ ناپاک ہے۔ یا فسق ہو جو اللہ کے علاوہ کسی اور نام سے مشہور کر دی گئی ہو۔‘‘

 ایک شخص جو ان کے پاس تھا کہنے لگا میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیہہ کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’وہ تو خبائث سے ہے، یہ سن کر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے تو ٹھیک ہے۔ (مسند امام احمد، ص: ۳۸۱، ج۲) لیکن اس حدیث کی سند میں تین راوی مجہول ہیں۔

 (۱) عیسیٰ بن نمیلہ الفزاری، (۲) اس کا والد نمیلہ فزاری، (۳) حضرت ابوہریرہ سے بیان کرنے والا ’’شیخ‘‘ اس بنا پر یہ روایت قابل حجت نہیں ہے۔

 علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو ضعیف ابی داؤد میں درج کر کے اس کے ضعف کو برقرار رکھا ہے۔[2] ہمارے رجحان کے مطابق ایک ضعیف حدیث پر بنیاد رکھتے ہوئے ایک جانور کو حرام نہیں کہا جا سکتا، اس لیے یہ حلال ہے اور اس کے حرام ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔ ہاں اگر کسی کا دل نہ چاہے تو الگ بات ہے اسلام انسان کو کسی چیز کے استعمال کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ (واللہ اعلم)


[1]  ۶/الانعام: ۱۴۵۔

[2] حدیث نمبر۸۱۴۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:488

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ