سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(588) میڈیکل کمپنی میں بطور ریپ ملازمت کرنا

  • 20237
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 1711

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ایک کمپنی میں میڈیکل ریپ کے طور پر کام کرتا ہوں، میرے شعبہ میں کچھ کمپنیاں ڈاکٹر حضرات کو خطیر رقم دیتی ہیں تاکہ وہ ان کی تیار کردہ دوائی مریضوں کو لکھ کر دے، کیا اپنی خریداری بڑھانے کے لیے ڈاکٹروں کو بھاری رقم پیش کرنا جائز ہے؟ اگر ناجائز ہے تو ایسی کمپنی میں ملازمت کرنا حلال ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ڈاکٹر حضرات شعبہ خدمت خلق کا ذریعہ اور باعزت وسیلہ کسب معاش ہے، لیکن افسوس کہ اس میں ہوس زر اور جلب مال کی بہتات نظر آتی ہے، بہت کم ڈاکٹر ایسے ہیں جو مریض سے ہمدردی رکھتے ہوں اور اس کی صحت و سلامتی کے لیے ان کے دل دھڑکتے ہوں، اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو مریض کی صحت کے بجائے اس کی جیب پر نظر رکھتے ہیں، لوگوں سے پیسے بٹورنے کے لیے ان حضرات کے ہاں کئی ایک مراحل ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:

٭ سب سے پہلا مرحلہ مشورہ فیس کا ہے، اس کے لیے پہلے ٹائم لینا پڑتا ہے پھر اپنے نمبر کا انتظار کرنا پڑتا ہے، ان کے ہاں مشورہ فیس تین طرح کی ہے: 1)کلینک میں مشورہ فیس، 2) گھر جا کر مریض دیکھنے کی مشورہ فیس۔ 3) ایمر جنسی مشورہ فیس۔

٭ دوسرا مرحلہ ٹیسٹ رپورٹ کا ہے، مریض کو مختلف قسم کے ٹیکے لکھ دئیے جاتے ہیں اور مخصوص لیبارٹری سے ٹیسٹ کرانے کی تلقین کی جاتی ہے، جتنے مریض لیبارٹری پر جائیں گے، اسی حساب سے شام کے وقت ڈاکٹر صاحب کا کمیشن باعزت طریقہ سے گھر پہنچ جاتا ہے۔

٭ تیسرا مرحلہ دوائی لکھ کر دینے کا ہے، ادویات تیار کرنے والی بڑی بڑی کمپنیاں، ان سے رابطہ کرتی ہیں اور انہیں خطیر رقم یا بہترین ہوٹل میں قیام و طعام اور سیر و تفریح کی پیشکش کرتی ہیں تاکہ ڈاکٹر صاحب ان کی تیار کردہ ادویات مریضوںکو لکھ کر دیں۔

٭ چوتھا مرحلہ اپنے پاس سے دوائی دینے اور ڈرپ لگانے کا ہے، مختلف کمپنیوں کی طرف سے بطور نمونہ ادویات ان کے ہاں موجود ہوتی ہیں، جن پر لکھا ہوتا ہے کہ ان کی خرید و فروخت ممنوع ہے اس کے باوجود ان کی قیمت وصول کر کے جیب میں ڈال لی جاتی ہے۔

٭ پانچواں اور آخری مرحلہ آپریشن کا ہے، مریض آپریشن تھیٹر میں لیٹا ہوتا ہے دوسری طرف لواحقین کی دوڑ لگائی جاتی ہے کہ فلاں دوائی لاؤ، فلاں ٹیکے کی ضرورت ہے، اس قسم کی اکثر ادویات دوبارہ میڈیکل سٹور پر پہنچ جاتی ہیں، بہرحال ہمارے معاشرہ میں یہ پیشہ کالی بھیڑوں کی وجہ سے خاصہ بدنام ہو چکا ہے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’تم میں سے جو شخص اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے تو وہ اسے ضرور فائدہ پہنچائے۔‘‘ [1]

 ہمارے رجحان کے مطابق میڈیکل کمپنیاں جو ڈاکٹر حضرات کو رقم یا سیر و تفریح کی پیشکش کرتی ہیں، یہ ایک رشوت ہے جو ان کی خریداری بڑھانے کے لیے پیش کی جاتی ہے، ڈاکٹر حضرات بھی اس نمک کو حلال کرنے کے لیے ایسی ادویات لکھ دیتے ہیں جن کی مریض کو قطعاً ضرورت نہیں ہوتی ہے۔جب ڈاکٹر مریض سے مشورہ فیس وصول کرتا ہے تو اسے مریض کے ساتھ ہر لحاظ سے ہمدردی کرنا چاہیے، اگر ڈاکٹر کو کوئی کمپنی بطور رشوت کسی چیز کی پیشکش نہیں کرتی تو ایسے حالات میں  میڈکل ریپ کے طور پر کام کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن عام طور پر اس قسم کی پیشکش اپنے کارندوں کے ذریعے کی جاتی ہیں، اگر اس سے اپنے دامن کو محفوظ رکھا جاسکتا ہو تو میڈکل کمپنی میں ریپ کے طور پر کام کرنے میں چنداں حرج نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)


[1]  صحیح مسلم، الطب: ۵۷۳۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:486

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ