سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(587) میرج ھال کرائے پر دینا

  • 20236
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 821

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرج ہال تعمیر کر کے شادی کے پروگرام کےلیے کرایہ پر دینا شرعاً کیسا ہے، آیا اس میں کتاب و سنت کے اعتبار سے کوئی قباحت تو نہیں ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مومن کی شان یہ ہے کہ وہ خود بھی کوئی خلاف شریعت کام نہ کرے اور نہ ہی خلاف شرع کام کا سبب بنے۔ انگوروں کی خرید و فروخت جائز ہے لیکن اگر کوئی شراب کشید کرنے کے لیے انگور خریدنا چاہے تو بیچنے والے کو اسے انگور بیچنا جائز نہیں ہے ، اسی طرح میرج ہال کی تعمیر لوگوں کی سہولت کے لیے ہے اس میں بظاہر کوئی قباحت نہیں ہے لیکن ہمارے ہاںشادی بیاہ کے موقع پر بہت سے کام خلاف شریعت ہوتے ہیں، مثلاً: 1)موسیقی اور گانے بجانے کا کھلے بندوں اہتمام ہوتا ہے۔ 2) فوٹو اتارنے اور مووی بنانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا جاتا۔ 3) بے حجابی اور بے پردگی نیز مرد و زن کا اختلاط بھی عام ہے۔ اسی طرح دیگر خلاف شرع کام بھی ہوتے ہیں، لہٰذا ایسے کاموں کے لیے میرج ہال کرایہ پر دینا، گناہ کے کاموں میں تعاون کرنا ہے جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو، گناہ اور سر کشی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کیا کرو۔‘‘ [1]

 لہٰذا ہمارا رجحان یہ ہے کہ اس قسم کے ہال تعمیر کرنے میں سرمایہ خرچ کرنے کے بجائے کسی اور کام میں سرمایہ لگایا جائے، جس میں حلال منافع کی امید ہو، جیسا کہ عمارت تعمیر کر کے بینک کو کرایہ پر دینا جائز نہیں، اسی طرح دوسرے ناجائز کاموں کے لیے بھی کوئی عمارت کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)


[1]  ۵/المآئدۃ:۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:485

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ