السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب پاکستان بنا تو کئی عورتوں نے ہندوؤں اور سکھوں سے اپنی عزت و ناموس بچانے کے لیے نہر یا کنویں میں چھلانگیں لگا کر خود کشی کر لی۔ کیا ایسا کرنا قرآن و حدیث کی رو سے جائز ہے؟ براہِ کرم اولین فرصت میں اس مسئلہ کی وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت اسلامیہ میں ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دین و اخلاق، مال و متاع، جسم و جان اور عزت و ناموس کا دفاع کرے، اگر ان کی حفاظت کرتے ہوئے جان، جان آفریں کے حوالے ہو جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو شہید قرار دیا ہے اگرچہ یہ شہادت میدان کارزار میں جان قربان کر دینے سے کمتر درجہ کی ہے، تاہم اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسا انسان انتہائی پسندیدہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو انسان اپنے اہل و عیال کو بچاتے ہوئے کام آجائے یا اپنے خون و جسم کی حفاظت میں فوت ہو جائے یا اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے تو وہ شہید ہے۔‘‘[1]
ایک روایت میں ہے کہ جو انسان اپنے مال و متاع کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہو جائے وہ شہید ہے۔[2]
عزت و ناموس کا دفاع کرنے والا بھی شہید ہے بلکہ اپنے آپ سے کسی کے ظلم کو دور کرتے ہوئے قتل ہو جانے والا بھی شہید ہے۔ [3]
اپنی عزت کا دفاع کرنا اور اس سلسلہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا بہت اچھی موت ہے لیکن اس سلسلہ میں خود کشی کی اجازت نہیں ہے، حدیث میں ہے کہ ایک انسان کو گہرا زخم لگا، وہ اس کی تاب نہ لا سکا تو اس نے خود کو قتل کر دیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے بندے نے اپنی جان دینے کے متعلق مجھ سے جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے میں نے اس پر جنت کو حرام کر دیا ہے۔ [4]
خود کشی کرنے والے کے متعلق بہت سی احادیث کتب حدیث میں مروی ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے تیز دھار والے آلے سے خود کو ختم کیا وہ جہنم میں اسی طرح سزا سے دو چار ہو گا۔‘‘ [5]
جس نے گلہ گھونٹ کر خود کو ختم کیا یا پیٹ میں چھرا گھونپ کر اپنے آپ کو قتل کر لیا، اسے قیامت کے دن اسی قسم کی سزا دی جائے گی۔ [6]
ان احادیث کی روشنی میں عزت و ناموس کو بچانے کے لیے خود کشی کی اجازت نہیں دی جا سکتی بلکہ ہمارے رجحان کے مطابق اس قسم کے حالات میں مردانہ وار مقابلہ کیا جائے اور اپنی جان اگر قربان ہوتی ہے تو اس سے دریغ نہ کیا جائے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔ ’’کیا آدمی دشمن کو گرفتاری پیش کر سکتا ہے؟ اور جو گرفتاری کے بجائے جان دے دے اس کا کیا حکم ہے؟‘‘ [7]
پھر انہوں نے ایک طویل حدیث پیش کی ہے، جس میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس آدمیوں کو جاسوس بنا کر روانہ کیا اور ان کے امیر حضرت عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا۔ عسفان اور مکہ کے درمیان بنو لحیان نے ان کا گھیراؤ کر لیا اور انہیں امان دینے کا وعدہ کیا بشرطیکہ وہ خود کو دشمن کے حوالے کر دیں حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ نے گرفتاری دینے کے بجائے اپنی جان کا نذرانہ دینے کو ترجیح دی، اس طرح سات آدمی شہید ہو گئے جبکہ حضرت خبیب، ابن دثنہ اور عبداللہ بن طارق رضی اللہ عنہم نے خود کو گرفتاری کے لیے پیش کر دیا۔ [8]
اسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ بوقت ضرورت گرفتاری پیش کی جا سکتی ہے لیکن خود کشی کرنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تبوک کے لیے روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی کمزور آدمی ہمارے ساتھ روانہ نہ ہو۔‘‘ ان میں ایک آدمی کمزور سواری پر نکلا اور اس سے گر کر مر گیا لوگوں نے کہا یہ شہید ہے، یہ شہید ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ ’’اعلان کر دو جنت میں نافرمان آدمی داخل نہیں ہو گا۔‘‘[9] ان تصریحات کے پیشِ نظر کسی خاتون کا عزت و ناموس بچانے کے لیے خود کشی کرنا محل نظر ہے۔
[1] مسند امام احمد، ص: ۱۹۰،ج۱۔
[2] صحیح بخاری،حدیث: ۲۴۸۰۔
[3] مسند الامام احمد، ص: ۳۰۵،ج۱۔
[4] بخاری، الجنائز: ۱۳۶۴۔
[5] بخاری، الجنائز: ۱۳۶۳۔
[6] صحیح بخاری، الجنائز: ۱۳۶۵۔
[7] کتاب الجہاد، باب نمبر:۱۶۹۔
[8] صحیح بخاری، الجہاد: ۳۰۴۵۔
[9] فتح الباری، ص: ۱۱۱،ج۶۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب