سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(579) یتیمی کی مدت

  • 20228
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1586

سوال

(579) یتیمی کی مدت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کسی کا والد فو ت ہو جائے تو وہ کس وقت تک یتیم رہتا ہے، شریعت نے اس کی کیا حد مقرر کی ہے؟کتاب و سنت سے اس کی وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ احتلام کے بعد یتیمی نہیں ہے۔ (بیہقی، ص: ۳۲۰،ج۷) امام ابوداؤد نے اس پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے۔

 ’’یتیمی کب ختم ہوتی ہے؟‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ بچے اس وقت تک یتیم رہتے ہیں، جب تک وہ بالغ نہ ہوں، اگر بالغ ہو جائیں تو شرعاً یہ حالت ختم ہو جاتی ہے اب یہ سوال کہ انسان بالغ کب ہوتا ہے؟ مختلف احادیث کے پیش نظر اس کی تین علامتیں ہیں:

1) بچے کو احتلام آجائے یا بچی حالتِ حیض سے دوچار ہو جائے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔

2)  جب بچے یا بچی کی عمر پندرہ سال ہو جائے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ غزوۂ احد کے دن چودہ چودہ سال کے تھے تو انہیں جنگ میں شرکت کی اجازت نہ ملی تھی لیکن آیندہ سال جب وہ پندرہ برس کے ہوئے تو غزوۂ خندق میں شرکت کی اجازت مل گئی۔ [1]

3) زیرناف بال اگ آئیں چنانچہ حدیث میں ہے کہ غزوۂ بنی قریظہ کے دن جس شخص کے زیر ناف بال اگے ہوئے ہوتے اسے قتل کر دیا جاتا اور جس کے بال نہ ہوتے اسے چھوڑ دیا جاتا۔ [2]

 بہرحال بلوغ کے بعد یتیمی کی حالت ختم ہو جاتی اور بلوغ کی مذکورہ بالا تین علامتیں ہیں۔


[1] بخاری، المغازی: ۹۷۴۰۔

[2]  ابوداود حدیث: ۴۴۰۴۔ 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:480

محدث فتویٰ

تبصرے