سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(577) عاشوراء کی فضیلت پر حدیث کی صحت

  • 20226
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 811

سوال

(577) عاشوراء کی فضیلت پر حدیث کی صحت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

الترغیب والترھیب کے حوالہ سے ایک حدیث نظر سے گزری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال کے لیے وسعت اور فراخی کرے گا اللہ تعالیٰ تمام سال اس پر وسعت فرمائے گا۔ مجھے یہ حدیث الترغیب و الترہیب کے عربی نسخہ میں نہیں مل سکی، اس حدیث کے متعلق روشنی ڈالیں نیزبتائیں کہ اس کے مضمون کی شرعاً کیا حیثیت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

علامہ عبدالعظیم منذری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ [1]

 آخر میں لکھا ہے کہ اس حدیث کو امام بیہقی وغیرہ نے تعدد طرق سے بیان کیا ہے اور یہ حدیث کئی ایک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، اس حدیث کی تمام اسانید ضعیف ہیں تاہم انہیں ایک دوسرے سے ملانے کی بنا پر کچھ تقویت حاصل ہو جاتی ہے۔ [2]

 اسی طرح صاحب مشکوٰۃ نے رزین کے حوالہ سے اس حدیث کو بیان کیا ہے جسے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، پھر حضرت سفیان کے حوالہ سے لکھا ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو حدیث کے مطابق اسے صحیح پایا، اسی طرح امام بیہقی نے اپنی کتاب شعب الایمان میں حضرت ابوہریرہ، حضرت ابو سعید اور حضرت جابر رضی اللہ عنہم سے بیان کیا ہے اور اسے ضعیف قرار دیا ہے۔[3]

 علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے تمام طرق ضعیف ہیں، امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے موضوع قرار دیا ہے اور ایسا مؤقف اختیار کرنا کوئی بعید از عقل نہیں کیونکہ احادیث کی صحت تجربہ کی محتاج نہیں جیسا کہ سفیان سے بیان کیا ہے۔ [4]

 اگرچہ بعض علماء نے اس حدیث کو قابل حجت قرار دیا ہے لیکن ہمارے رجحان کے مطابق یہ حدیث انتہائی کمزور ہے، امام ابن جوزی، ابن تیمیہ، عقیلی اور زرکشیرحمۃ اللہ علیہم نے اسے خود ساختہ کہا ہے، اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ یہ حدیث انتہائی منکر ہے۔ [5]

 امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ عاشوراء کے دن غسل کرنے، سرمہ لگانے، مہندی استعمال کرنے، بہترین کھانے پکانے اور خوشی کا اظہار کرنے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مروی ہے؟ حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے جواب میں فرمایا: اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کوئی صحیح حدیث مروی نہیں ہے اور نہ ہی ائمہ اسلام نے ان کاموں کو اس دن مستحب قرار دیا ہے، ائمہ اربعہ سے بھی اس سلسلہ میں کچھ منقول نہیں، نیز قرون فاضلہ میں ان امور کے متعلق کچھ مروی نہیں ہے البتہ کچھ متاخرین نے یہ احادیث بیان کی ہیں۔ مثلاً جو شخص اس دن اپنی آنکھوں میں سرمہ ڈالے گا اس کی آنکھیں سارا سال خراب نہیں ہوں گی اور جو شخص عاشوراء کے دن غسل کرے گا وہ سارا سال بیماریوں سے محفوظ رہے گا۔ نیز اس سلسلہ میں ایک خود ساختہ حدیث بیان کی جاتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کھلا جھوٹ ہے، پھر انہوں نے مذکورہ حدیث کو بیان کیا ہے۔ [6]

 بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا روزہ مشروع قرار دیا ہے بلکہ آپ اس دن کا خود بھی روزہ رکھتے تھے، انواع و اقسام کے کھانوں کا اہتمام روزے کے منافی ہے، ہمیں صرف روزے کااہتمام کرناچاہیے۔ باقی تمام امور سے اجتناب کیا جائے کیونکہ اسلاف سے ایسا کرنا ثابت نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)


[1]  الترغیب والترہیب،ص: ۱۱۶،ج۲۔

[2]  حوالہ مذکور۔

[3] مشکوٰۃ، کتاب الزکوٰۃ، باب فضل الصدقہ۔   

[4]  حاشیہ مشکوۃ،ص: ۶۰۱،ج۱۔

[5]   لسان المیزان ن، ص: ۴۳۹،ج۴۔

[6] 4 الفتاویٰ،ص: ۳۰۰،ج۲۵۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:478

محدث فتویٰ

تبصرے