السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خاندانی منصوبہ بندی میں ملازمت کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے، اس ملازمت سے ملنے والی تنخواہ کا کیا حکم ہے۔ نیز جو شخص اپنی بیوی کو اس قسم کی ملازمت اختیار کرنے پر مجبور کرے، کیا وہ امامت کا حقدار ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو کام شرعاً حرام ہیں، ان کی ملازمت ناجائز اور حرام ہے مثلاً سود لینا دینا حرام ہے اسی طرح شراب فروخت کرنا بھی ناجائز ہے‘ اس کاروبار میں ملازمت کرنا بھی درست نہیں ہے۔ اسی طرح ان کی کمائی بھی حرام ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت سعید بن ابی حسن کہتے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس تھا جب ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا اے ابن عباس رضی اللہ عنہ ! میں فوٹو گرافی کرتا ہوں اور ہاتھ سے تصویریں بنا کر اپنا پیٹ پالتا ہوں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص تصاویر بناتا ہے، اسے اللہ تعالیٰ سزا دے گا اور کہے گا کہ اس میں روح پیدا کرو، لیکن وہ اس تصویر میں روح نہیں پھونک سکے گا، وہ آدمی یہ حدیث سن کر کانپ گیا اور اس کا رنگ فق ہو گیا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر تو نے تصاویر کو ہی ذریعہ معاش بنانا ہے تو ایسی چیزوں کی تصاویر بناؤ جس میں روح نہ ہو مثلاً درخت اور پہاڑ وغیرہ۔ [1]
بخاری نے اس پر یوں عنوان قائم کیا ہے ’’ایسی تصاویر کی خرید و فروخت جن میں روح نہ ہو۔‘‘
صورت مسؤلہ میں منصوبہ بندی کے متعلق سوال ہے کہ اس میں ملازمت کرنا شرعاً کیسا ہے؟ اس سلسلہ میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ بعض حالات میں منصوبہ بندی کی شرعاً اجازت ہے لیکن اس کی تحریک چلانا درست نہیں ہے، اس میں عورتوں کی بعض مخصوص امراض کا بھی علاج کیا جاتا ہے، وہاں اگر فیشن کے طور پر منصوبہ بندی کی جاتی ہو اور ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ کی آواز عام کرنا مقصود ہو تو شرعاً اس میں ملازمت کرنا صحیح نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے کھانے کے لیے ایک منہ دیا ہے تو کمانے کے لیے دو ہاتھ عطا فرمائے ہیں، اس لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ذریعہ معاش کے لیے حلال اور جائز ذرائع کو استعمال میں لائے، اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کو اس محکمہ میں ملازمت کے لیے مجبور کرتا ہے تو یہ گناہ کے کام پر تعاون کرنا ہے البتہ اس کی امامت صحیح ہے، اگرچہ بہتر ہے کہ اسے حق الخدمت زیادہ دیا جائے تاکہ وہ اپنی بیوی کو اس کام پر مجبور نہ کرے۔‘‘ (واللہ اعلم)
[1] صحیح بخاری، البیوع: ۲۲۲۵۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب