السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی نے چوری کی، سامان کے مالک نے عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا، کیا وہ عدالت میں جانے کے بعد چور کو معاف کر سکتا ہے تاکہ اس سے حد ساقط ہو جائے، قرآن و سنت اس معاملہ میں ہماری کیا راہنمائی کرتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ خود معاف کرنے والا ہے اور معافی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے لیکن چوری کے معاملات عدالت میں جانے سے پہلے پہلے معاف ہوتے ہیں۔ جب کوئی معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہو تو مالک کو معاف کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آپس میں حدود معاف کر دو اور جس حد کا معاملہ میرے پاس آجائے تو وہ واجب ہو جائے گی۔‘‘ [1]
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چور کا چوری ثابت ہونے پر ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو جس کی چوری ہوئی تھی، اس نے کہا میں نے یہ چیز اسے ہبہ کر دی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے میرے پاس لانے سے پہلے تو نے ایسا کام کیوں نہ کیا۔‘‘ [2]
اگرچہ کچھ ائمہ کرام کا مؤقف ہے کہ عدالت میں جانے کے بعد بھی اگر مالک معاف کر دے تو حد ساقط ہو جائے گی لیکن مذکورہ احادیث سے اس مؤقف کی تردید ہوتی ہے، لہٰذا عدالت میں پہنچنے سے پہلے پہلے معاف کر دینے کا حق ہے، اس کے بعد وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ (واللہ اعلم)
[1] ابوداود، الحدود: ۴۳۷۶۔
[2] مستدرک حاکم، ص: ۳۸۰،ج۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب