سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(563) گھریلو ناراضگی کی وجہ سے پانچ ماہ کے حمل کو ضائع کرنا؟

  • 20212
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-19
  • مشاہدات : 711

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 میری لڑکی کو سسرال والوں نے گھر سے نکال دیا ہے جبکہ وہ پانچ ماہ کی حاملہ ہے اور دھمکی بھی دی ہے کہ ہم نے صرف بچہ حاصل کرنا ہے، اس کے بعد ہم نے اسے طلاق دے دینی ہے، کیا اس صورت میں بچی کا حمل ضائع کیا جا سکتا ہے تاکہ اس کا آگے نکاح کرنے میں کوئی دشواری نہ ہو؟۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دین اسلام جذبات میں آکر کسی قسم کے فیصلے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، اگر پانچ ماہ کی حاملہ بچی کو سسرال والوں نے گھر سے نکال دیا ہے تو اس صورت حال کے پیش نظر ہمیں کوئی جذباتی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے جس کی شریعت نے ہمیں اجازت نہیں دی ہے۔ خاندان میں جو صاحب بصیرت اور عقلمند حضرات ہیں، انہیں درمیان میں لا کر حالات کا جائزہ لیا جائے، اگر بچی کا کوئی قصور ہے تو اسے سمجھایا جائے، اگر سسرال والے قصور وار ہیں تو انہیں اپنے مؤقف اور رویے پر نظر ثانی کرنے کے لیے کہا جائے، اس طرح کے معاملات کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے صلح اور مل بیٹھنے میں خیر و برکت رکھی ہے۔ ایک موھوم صورت پر بنیاد رکھ کر اتنا بڑا اقدام نہ کیا جائے جس کے متعلق ہمیں قیامت کے دن باز پرس ہو۔ اسلام ہمیں ایسے حالات میں حمل ضائع کرنے کی اجازت نہیں دیتا، خاص طور پر جب چار ماہ سے زائد مدت کا حمل ہو اور اس میں روح پڑ چکی ہو تو اسے ضائع کرنا قتل ناحق کے مترادف ہے۔ ہاں اگر ایسی صورت حال سامنے آجائے کہ وہ حمل بچی کے لیے جان لیوا ثابت ہونے کا اندیشہ ہو اور کوئی تجربہ کار سمجھ دار ڈاکٹر کی رپورٹ پر اعتماد کرنے پر اسے ضائع کیا جا سکتاہے۔ لیکن صورت مسؤلہ میں اسے ضائع کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اس موقع پر ہم سائلہ کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ صبر سے کام لے، سسرال کے ہاتھوں مجبور ہو کر کوئی ایسا اقدام نہ کرے جس کی شریعت نے اجازت نہیں دی ہے، برادری کے ذریعے اس مسئلہ پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:469

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ