سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(560) مسلمان عورت کو کن کن لوگوں سے پردہ نہیں کرنا چاہیے۔؟

  • 20209
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 665

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسلمان عورتوں کو کن کن لوگوں سے پردہ نہیں کرنا چاہیے۔ کتاب وسنت کی روشنی میں اس امر کی وضاحت کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمان عورت صرف اپنے محرم مردوں سے پردہ نہیں کرے گی، ان کے علاوہ دیگر تمام لوگوں سے پردہ کرنا چاہیے۔ عورت کا محرم وہ شخص ہوتا ہے جس سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہوتا ہے مثلاً باپ، بھائی اور بیٹا وغیرہ۔ محارم کی حسب ذیل تین اقسام ہیں:

٭ نسبی محارم: اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرابت داری کی وجہ سے محرم بنتے ہیں، قرآن کریم نےسورۂ نور [1]میں ایسے لوگوں کی تفصیل بیان کی ہے اور وہ حسب ذیل ہیں:

1)  آباء واجداد: عورت کا والد اور اس کے اوپر والے آباء واجداد، ان میں نانا اور اس کا والد بھی شامل ہے۔

2) بھائی: عورت کے بیٹے اور ان کی اولادر اولاد، ان میں پوتے اور نواسے وغیرہ سب شامل ہیں۔

3)  بھائی: اس سے مراد حقیقی، پدری اورمادری بھائی بھی شامل ہیں، یہ بھی عورت کے لیے محرم کی حیثیت رکھتے ہیں۔

4)  بھانجے اوربھتیجے: عورت کے بھائی کے بیٹے اور ان کی اولاد در اولاد، اسی طرح عورت کی بہن کے بیٹے اور ان کی اولاد در اولاد ان میں شامل ہے۔

5) چچا اور ماموں: ان دونوں کا اگرچہ قرآن کریم میں ذکر نہیں ہے تاہم انہیں والد کا قائم مقام قرار دیا گیاہے اور انہیں محارم میں شمار کیا گیا ہے۔

٭ رضاعی محارم: اس سے مراد وہ محارم ہیں جو عورت کے لیے دودھ کی وجہ سے محرم بن جاتے ہیں، دودھ کا رشتہ بھی نسبی رشتہ کی طرح ہے، جس طرح نسبی محرم کے سامنے عورتوں کے لیے پردہ نہ کرنا مباح ہے، اسی طرح دودھ کی وجہ سے محرم بننے والے شخص کے سامنے اس کے لیے پردہ نہ کرنا مباح ہے، حدیث میں ہے: ’’اﷲ تعالیٰ نے دودھ کی وجہ سے بھی ان رشتوں کو حرام کر دیا ہے جنہیں نسب کی وجہ سے حرام کیا ہے۔‘‘ [2]

 کسی عورت کا دودھ پینے سے اس کا خاوند، باپ اور اس کے بیٹے بھائی قرار پاتے ہیں، لہٰذا ان رضاعی محارم سے بھی پردہ نہ کرنا مباح ہے، احادیث میں رضاعی چچا سے پردہ نہ کرنے کا ذکرملتا ہے۔ [3]

٭ سسرالی محارم: عورت کے لیے کچھ رشتہ دار ایسے ہوتے ہیں جو نکاح کی وجہ سے محرم بن جاتے ہیں اور ان سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتا ہے۔ مثلاً:

(الف) بہو کے لیے خاوند کا باپ یعنی سسر محرم کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔

(ب) ساس کے لیے بیٹی کا خاوند یعنی داماد بھی محرم بن جاتا ہے۔

(ج)  والد کی بیوی کے لیے وہ بیٹے جو اس کی دوسری بیوی کے بطن سے ہوں، محرم ہیں اور ان سے نکاح حرام ہے، قرآن کریم نے ان کے محرم ہونے کی صراحت کی ہے۔[4]

 مذکورہ محرم رشتہ داروں کے علاوہ دوسرے تمام لوگوں سے عورت کو پردہ کرنا چاہیے۔


[1] ۲۴/النور: ۳۱۔ 

[2]  مسند امام احمد، ص: ۱۳۱، ج۱۔ 

[3]  صحیح بخاری، النکاح: ۵۱۰۳۔

[4] ۲۴/النور: ۳۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:465

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ