السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری بیوی، دوسری عورتوں کو دیکھ کر مجھ سے ایسی چیزوں کامطالبہ کرتی ہے جسے میں پورا نہیں کر سکتا، کیونکہ میری آمدنی کے ذرائع انتہائی محدود ہیں، اس سلسلہ میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ قرآن وحدیث کے مطابق میری الجھن کو حل کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں کوئی شک نہیں کہ بیوی کا خرچہ خاوند کے ذمہ ہے، جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم پر معروف طریقہ سے ان عورتوں کو کھلانا پلانا اور انہیں لباس مہیا کرنا لازم ہے۔‘‘[1] ایک دوسری حدیث میں حضرت عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خبردار! عورتوں کا حق تم پر یہ ہے کہ انہیں لباس مہیا کرنے اور انہیں کھانا مہیا کرنے میں تم ان سے اچھا سلوک کرو۔‘‘ [2]
لیکن اخراجات کی کوئی مقدار مقرر نہیں ہے کیونکہ کسی عورت کو زیادہ خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی کو کم، اسی طرح کوئی عورت دن میں دوبار کھانا کھاتی ہے اور کوئی تین بار کھانا کھانے کی عادت ہوتی ہے، کسی کا علاج سستی ادویات سے ہو جاتا ہے اور کسی کو مہنگے علاج کی ضرورت ہوتی ہے، البتہ یہ بات اپنی جگہ پر حقیقت ہے کہ اس سلسلہ میں خاوند کی حیثیت کو ضرور مدنظر رکھا جائے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ١ وَ مَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّاۤ اٰتٰىهُ اللّٰهُ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَا١﴾[3]
’’صاحب حیثیت کو اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرنا چاہیے اور جس پر اس کا رزق تنگ کر دیا گیا ہے اسے چاہیے کہ جو کچھ اﷲ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرے۔ اﷲ تعالیٰ کسی کو اس کی ہمت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تو کھائے تو بیوی کو کھلائے اور جب تو پہنے تو بیوی کو بھی پہنائے۔ [4]
صورت مسؤلہ میں عورت کا رویہ اچھا نہیں کیونکہ وہ دوسری عورتوں کو دیکھ کر اپنے مطالبات خاوند کے ہاں پیش کرتی ہے، اسے کفایت شعاری سے کام لینا چاہیے اور اپنے خاوند کے ذرائع آمدنی کے مطابق ہی خرچ کا مطالبہ کرنا چاہیے، علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں ایک حدیث کی نشاندہی کی ہے۔
’’بنی اسرائیل کی ابتدائی ہلاکت یہ تھی کہ ایک تنگ دست شخص کی بیوی اسے لباس یا زیورات لانے کی اتنی تکلیف دیتی تھی جتنی صاحب حیثیت خاوند کی بیوی زیورات کی تکلیف دیتی ہے۔ [5] بہرحال بیوی کو اس قسم کے غریب خاوند کی حالت زار پر رحم کرنا چاہیے۔ (واﷲ اعلم)
[1] صحیح مسلم، الحج: ۱۲۱۸۔
[2] ترمذی، الرضاع: ۱۱۶۳۔
[3] ۶۵/ الطلاق: ۷۔
[4] ابو داود، النکاح: ۲۱۴۲۔
[5] الاحادیث الصحیحہ: ۵۹۱۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب