السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا کے متعلق حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایک بوڑھا مؤذن مقرر کیا تھا اور آپ اپنے گھر کے جملہ افراد کی امامت کرواتی تھیں، اس سے عورتوں کا مردوں کی جماعت کرانا ثابت کیا جاتا ہے، اس مسئلہ کی وضاحت کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مذکورہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا کی ملاقات کے لیے ان کے گھر جاتے تھے اور اذان دینے کے لیے آپ نے ایک مؤذن مقرر کیا تھا اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تھا کہ آپ اپنے اہل خانہ کی امامت کرا دیا کریں۔ [1]
اس حدیث سے عورتوں کا مردوں کی امامت کرانا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ دوسری حدیث میں اس امر کی وضاحت ہے کہ ام ورقہ رضی اللہ عنہا اپنے گھر اور محلے دار عورتوں کی امامت کراتی تھیں، چنانچہ ایک روایت میں ہے: ’’بلاشبہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا کو اجازت دی تھی کہ ان کے لیے اذان اور اقامت کہی جائے تاکہ وہ اپنے گھر اورمحلے والی عورتوںکی امامت کریں۔[2] اس حدیث پر امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’فرض نماز میں عورت کا عورتوں کی امامت کرانے کا بیان‘‘[3]اس وضاحت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ام ورقہ رضی اللہ عنہا کے پیچھے ان کا مؤذن نماز نہیں پڑھتا تھا وہ صرف اذان دینے پر متعین تھا۔ (واﷲ اعلم)
[1] ابو داود، الصلوٰۃ: ۵۹۲۔
[2] دارقطنی، ص: ۲۷۹، ج۱۔
[3] صحیح ابن خزیمہ، ص: ۸۹، ج۳۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب