سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(539) عورت کا عورتوں کو امامت کرانا

  • 20188
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 2863

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا گھر میں عورت، دوسری عورتوں کی جماعت کرا سکتی ہے، اگر جماعت کرانا ہو تو کیا اس کے لیے اذان اور تکبیر کہی جائے یا تکبیر کہہ کر جماعت کرانا کافی ہو گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورتوں کے لیے اذان کہنا مشروع نہیں ہے، یہ امور صرف مردوں کے ساتھ مخصوص ہیں، البتہ تکبیر کہہ کر عورتیں، باجماعت نماز ادا کر سکتی ہیں، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بزرگ خاتون حضرت ام ورقہ بنت نوفل رضی اللہ عنہا کو اس امر کی اجازت دی تھی، کیونکہ یہ خاتون قرآن کریم کی حافظہ تھی، حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔[1]رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے ایک بہت بوڑھا موذن مقرر کیا تھا اور حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کرایا کرے۔[2] گھر والوں میں مرد حضرات شامل نہیں ہیں کیونکہ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ ’’وہ اپنے گھر کی عورتوں کی امامت کرے۔‘‘ [3]

 ایک روایت میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی تھی کہ ان کے لیے اذان کہی جائے اور وہ اپنے اہل خانہ کی فرض نماز میں امامت کرائیں کیونکہ وہ حافظہ قرآن تھیں۔[4] جب عورت جماعت کرائے تو وہ آگے کھڑی ہونے کے بجائے عورتوں کے درمیان کھڑی ہو جیسا کہ حضرت حجیرۃ بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ہمیں نماز عصر پڑھائی تو وہ ہمارے درمیان کھڑی ہوئیں۔[5] بہرحال عورت اگر امامت کی اہلیت رکھتی ہے یعنی اسے قرآن مجید یاد ہے تو وہ عورتوں کی امامت کرا سکتی ہے اور جماعت کراتے وقت وہ عورتوں کے درمیان میں کھڑی ہو گی اور فرض اور نفل دونوں کی جماعت کرا سکتی ہے۔


[1] ابو داود، الصلوٰة: ۵۹۱۔

[2] ابو داود، الصلوٰة: ۵۹۲۔ 

[3] دارقطنی، الصلوٰة: ۱۰۶۹۔

[4] صحیح ابن خزیمہ، الصلوٰة: ۱۶۷۶۔    

[5] سنن الکبریٰ للبیہقی، ص: ۱۳۰، ج۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:450

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ