السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے اپنی بیوی کو مخاطب ہو کر قسم اٹھائی کہ تو اپنے میکے نہیں جائے گی، اب خیال آتا ہے کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، میرے لیے اس کا کیا حل ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
انسان کو قسم اٹھاتے وقت خوب غوروفکر کرنا چاہیے، اگر کوئی قسم اٹھانے کے بعد دیکھتا ہے کہ مصلحت اس میں نہیں بلکہ قسم کے خلاف کام کرنے میں ہے تو اپنی قسم کو توڑ دیا جائے اور اس قسم کا کفارہ ادا کر دیا جائے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جب تو قسم اٹھائے پھر اس کام کے مقابلہ میں دوسرے کام کو بہتر سمجھے تو قسم کا کفارہ ادا کر کے دوسرا بہتر کام کر لے۔ [1]
قسم کے کفارہ کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿ لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِيْۤ اَيْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَ١ۚ فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِيْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِيْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ١ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ١ ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَيْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ١ وَ احْفَظُوْۤا اَيْمَانَكُمْ١﴾[2]
’’اﷲ تم سے تمہاری لغو قسموں کے متعلق مواخذہ نہیں کرے گا لیکن جن قسموں کو تم نے مضبوط کر کے اٹھایا ہے، ان پر تم سے ضرور مواخذہ کرے گا۔ اس کا کفارہ دس مساکین کو اوسط درجے کا کھانا دینا ہے جو تم اپنے گھروں میں کھاتے ہو یا انہیں لباس دینا یا غلام آزاد کرنا ہے لیکن جو شخص ان کی طاقت نہ رکھے تو اس کے ذمے تین دن کے روزے ہیں، یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم اٹھا لو اور اپنی قسم کی حفاظت کیا کرو۔‘‘
اس حدیث اور آیت کے پیش نظر صورت مسؤلہ میں قسم اٹھانے والے کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو میکے جانے کی اجازت دے اور قسم توڑ دے اور پھر آیت میں مذکور اس کا کفارہ ادا کر دے، انسان کو چاہیے کہ وہ قسم اٹھاتے وقت خوب سوچ وبچار کرے، یہ کوئی بچوں کا کھلونا نہیں ہے کہ جب چاہے اسے توڑ لے اور جب چاہے اسے جوڑ لے۔ (واﷲ اعلم)
[1] صحیح بخاری، الایمان: ۶۶۲۲۔
[2] ۵/المائدۃ: ۸۹۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب