سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(535) عورت کا مردوں کا امام بننا

  • 20184
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 792

سوال

(535) عورت کا مردوں کا امام بننا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے قرآن حفظ کیا ہوا ہے اور دینی تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ ہوں جب کہ میرا خاوند دین کے معاملہ میں واجبی سا علم رکھتا ہے، کیا میں گھرمیں اس کی امامت کرا سکتی ہوں، کیونکہ حدیث میں ہے کہ لوگوں کی امامت وہ شخص کرائے جو کتاب اﷲ کا زیادہ قاری ہو۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت، مردوں کی امام نہیں بن سکتی چاہے خواہ وہ اس کا خاوند، بیٹا یا بھائی ہو۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جس نے اپنا معاملہ کسی عورت کے سپرد کر دیا ہو۔‘‘[1]

 عورت اگر مرد سے زیادہ پڑھی لکھی ہو تو بھی مردوں کی امامت کی اہل نہیں ہے ہاں وہ گھر میں عورتوں کی امامت کرا سکتی ہے جیسا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کرا سکتی ہے[2] کیونکہ وہ قرآن کریم کی حافظہ تھیں جیسا کہ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے۔[3] امامت کراتے وقت اسے عورتوں کے آگے نہیں بلکہ درمیان میں کھڑے ہونا چاہیے جیسا کہ حضرت حجیرۃ بنت حصین رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ہمیں نماز عصر پڑھائی تو وہ درمیان میں کھڑی ہوئیں۔ [4]

 سائلہ نے جس حدیث کے پیش نظر خود کو اپنے خاوند کی امامت کرانے کا اہل قرار دیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگوں کی امامت وہ شخص کرائے جو کتاب اﷲ کا زیادہ قاری ہو۔ [5]

 اس حدیث کو بنیاد بنا کر عورت، مرد کے ساتھ یکجا ہونے کی صورت میں اس حکم کی مخاطب نہیں ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے معاشرہ کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا: یعنی مرد اور عورتیں، اس بنا پر مذکورہ صورت میں عورت، حدیث کے عموم میں داخل نہیں نیز دیگر احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ عورت، منصب امامت کی اہل نہیں ہے۔ (واﷲ اعلم)


[1]  صحیح بخاری، المغازی: ۴۴۲۵۔

[2] ابو داود، الصلوٰۃ: ۵۹۱۔              

[3]  صحیح ابن خزیمہ، ص: ۸۹، ج۳۔

[4] بیہقی، ص: ۱۳۰، ج۳۔   

[5] صحیح مسلم، الصلوٰۃ: ۶۷۳۔ 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:448

محدث فتویٰ

تبصرے