سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(531) ہتھیائی رقم کی واپسی

  • 20180
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 941

سوال

(531) ہتھیائی رقم کی واپسی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دو آدمیوں نے کسی شخص سے فراڈ کر کے مبلغ دو ہزار روپے ہتھیا لیے۔ اس جرم میں وہ دونوں برابر کے شریک ہیں، اور رقم کو تقسیم کر لیتے ہیں، اب ان میں سے ایک توبہ کر لیتا ہے چونکہ مالی معاملات میں توبہ کی شرط یہ ہے کہ مظلوم کا مال واپس کیا جائے۔ کیا اسے صرف اپنا حصہ مبلغ ایک ہزار روپیہ واپس کرنا ہو گا یا اپنی ذاتی گرہ سے دو ہزار واپس کرے گا؟ وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واقعی حقوق العباد کا معاملہ انتہائی سنگین ہے، مالی معاملات کے متعلق توبہ میں دو چیزیں پیش نظر رکھنا ہوتی ہیں، ایک تو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جائے کیونکہ اس نے اللہ کی نافرمانی کی ہے دوسرے یہ کہ مظلوم کا مال واپس کیا جائے یا اسے راضی کر لیا جائے، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو قیامت کے دن اسے نیکیاں دے کر یا مظلوم کی برائیاں لے کر حساب برابر کیا جائے گا۔ صورت مسؤلہ میں جس شخص کو اللہ کا خوف دامن گیر ہوا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے دوسرے ساتھی کو اس توبہ پر آمادہ کرے، اسے خوف آخرت دلائے پھر دونوں مل کر اس کے نقصان کی تلافی کریں اور اس سے معافی بھی مانگیں اور آیندہ کے لیے ایسا فراڈ یا دھوکہ نہ کرنے کا مصمم ارادہ کریں، اگر ایسا ممکن نہ ہو تو جسے اللہ کا خوف آیا ہے وہ اللہ سے معافی مانگے اور اپنے حصے کی رقم مبلغ ایک ہزار روپیہ واپس کر کے مظلوم سے معاملہ کی وضاحت کر دے۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اتنا دے کر اللہ کے ہاں اس کی رہائی ہو جائے گی اس پر دوسرے ہزار کاتاوان نہ ڈالا جائے جو اس کی ساتھی کے پاس ہے، کیونکہ برے کام کا بدلہ تو برے کام کے مطابق اور اس کے برابر ہو گا جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:

﴿مَن جاءَ بِالحَسَنَةِ فَلَهُ عَشرُ أَمثالِها وَمَن جاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلا يُجزىٰ إِلّا مِثلَها وَهُم لا يُظلَمونَ ﴿١٦٠﴾... سورة الانعام

"اور جو برائی لے کر اللہ کے ہاں حاضر ہوگا اس اتنی ہی سزا دی جائےگی جتنی اس نے بُرائی کی تھی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔"

امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ قیامت کے دن وہ معاملہ کرے گا جو اس کی شانِ رحیمی کے مطابق ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:445

محدث فتویٰ

تبصرے