السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی کو کاروبار چلانے کے لیے رقم درکار ہے اور وہ بینک سے سود پر قرض لے کر اپنا کاروبار چلاتا ہے ایسے حالات میں سود پر قرض لینا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہمارے نزدیک سوال میں ذکر کردہ کوئی ایسی مجبوری نہیں جس کے پیش نظر سود لینا جائز قرار دیا جائے، سود پر قرض لے کر کاروبار چلانا، اس سے مزید تباہی ہو گی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ يُرْبِي الصَّدَقٰتِ١ ﴾[1]
’’اﷲ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کی نشوونما کرتا ہے۔‘‘
جب اﷲ تعالیٰ نے سود کو حرام کر دیا ہے تو ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اﷲ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دے، ایسے کاروبار کو ترک کر دیا جائے جو سودی قرض کے بغیر نہیں چلتا، انسان کو چاہیے کہ وہ محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالے، سود پر کسی صورت میں قرض نہ لے کیونکہ اس میں ہلاکت ہے جو انسان قوی اور کمانے کے قابل ہے اسے کسب حلال کا اہتمام کرنا چاہیے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ وہ شخص جو لکڑیوں کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے، اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے چاہے وہ اسے کچھ دے یا نہ دے۔[2]
اس حدیث میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے محنت اور مزدوری کی عظمت کو اجاگر کیا ہے، مذکورہ شخص کو سود پر قرض لے کر کاروبار چلانے کی بجائے محنت اورمزدوری کو اختیار کرنا چاہیے۔
[1] ۲/البقرۃ: ۲۷۶۔
[2] صحیح بخاری، البیوع: ۲۰۷۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب