سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(527) سر پر پیار دینا

  • 20176
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 1165

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے معاشرہ میں بزرگ حضرات چھوٹی بچیوں کے سر پر پیار دیتے ہیں، اس پر کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ شرعاً ایسا کرنا جائز نہیں ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

محبت بھرے جذبات سے خیروبرکت کی دعائیں دیتے ہوئے بزرگوں کا بچوں اور بچیوں کے سر پر ہاتھ پھیرنے کو ہمارے معاشرہ میں ’’پیار‘‘ کہا جاتا ہے۔ دین اسلام نے اسے مشروع قرار دیا ہے چنانچہ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میری خالہ مجھے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئیں، انہوں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا یہ بھانجا ہے، تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے خیروبرکت کی دعا فرمائی[1] امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر  بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے۔ ’’بچوں کے لیے خیروبرکت کی دعا کرتے ہوئے ان کے سر پر ہاتھ پھیرنا۔‘‘ [2]

 ولید بن عقبہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں تشریف لائے تو اہل مکہ اپنے بچوں کو آپ کی خدمت میں پیش کرتے، آپ ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے اور ان کے لیے دعا خیر کرتے[3] حضرت جریج پر جب تہمت زنا لگی تو اس واقعہ میں نومولود کے سر پر ہاتھ پھیرنے کا ذکرملتا ہے۔[4] اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی امتوں میں بھی یہ فطرتی رسم قائم تھی، جسے اسلام نے بھی برقرار رکھا ہے بلکہ یتیم بچے کے سر پر ہاتھ پھیرنے کو بہت اہمیت دی ہے چنانچہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جس نے یتیم بچے یا بچی کے سر پر ہاتھ پھیرا، اس سے صرف اﷲ تعالیٰ کی رضا جوئی مقصود تھی تو ہاتھ کے نیچے آنے والے ہربال کے عوض اسے نیکیاں دی جائیں گی۔[5]ایک آدمی نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی سنگدلی کا شکوہ کیا تو آپ نے بطور علاج یہ نسخہ تجویز کیا کہ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو اور مسکین کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک کیا کرو اس سے ترادل نرم ہو جائے گا۔ [6]زیربحث مسئلہ کی متعدد صورتیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

٭ بزرگ مرد محرم ہو تو اس کا اپنے سے چھوٹوں کو پیار دینا خواہ وہ بالغ ہی کیوں نہ ہوں۔

٭ بزرگ عورت محرمات سے ہے اس کا اپنے سے عمر میں چھوٹوں کو پیار دینا خواہ وہ حد بلوغ کو پہنچ چکے ہوں۔

٭ بزرگ مرد غیر محرم یا عورت غیرمحرمہ کا نابالغ بچوں اوربچیوں کو پیار دینا۔ اس کے جواز میں دوآراء نہیں ہو سکتیں۔ البتہ درج ذیل صورتوں میں اختلاف ہے۔

٭ بزرگ مرد غیر محرم ہو وہ اپنی رشتہ دار بالغ بچیوں کے سر پر ہاتھ پھیرے۔

٭ بزرگ عورت غیر محرمات سے ہو اور وہ اپنے رشتہ دار بالغ بچوں کو پیار دے۔

 ان آخری دونوں صورتوں کے متعلق مختلف علماء سے رابطہ کرنے کے بعد دو موقف سامنے آئے ہیں۔

(ا) ایسا کرنا جائز نہیں ہے کہ کیونکہ شریعت میں اس کا ثبوت نہیں۔

(ب) ایسا کرنا جائز ہے کیونکہ شریعت نے اس سے منع نہیں کیا۔ فریقین کے دلائل پیش کرنے کے بعد آخر میں ہم اپنا مؤقف بیان کریں گے۔ جو حضرات اسے ناجائز قرار دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں، آپ نے کبھی کسی بالغ بچی کے سر پر ہاتھ نہیں پھیرا حالانکہ آپ تمام لوگوں میں زیادہ پرہیزگار اور اﷲ سے ڈرنے والے تھے۔ نیز وہ امت کے لیے روحانی باپ کی حیثیت رکھتے بلکہ بعض مواقع پر آپ نے ایسے ارشادات فرمائے ہیں جن کے عموم سے پتہ چلتا ہے کہ ایسا کرنا جائزنہیں ہے۔ مثلاً:

(الف) عورتوں سے بیعت لیتے وقت بعض خواتین کی طرف سے خواہش کا اظہار ہوا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ہم سے مصافحہ کیوں نہیں کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا: ’’میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔‘‘ [7] جب بیعت کے وقت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ سے نہیں لگا تو عام آدمی کے لیے عورتوں کے سر پر ہاتھ پھیرنا کیونکر جائز ہو سکتا ہے؟

(ب) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیاہے کہ اﷲ کی قسم! رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو چھوا تک نہیں۔ [8]

 جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جو خیرالبشرہیں اور قیامت کے دن اولاد آدم کے سردار ہوں گے، ان کے مبارک ہاتھوں نے کسی عورت کے ہاتھ کو چھوا تک نہیں تو دوسرے غیرمحرم مردوں کے لیے کس طرح اجنبی عورتوں کے سر پر ہاتھ پھیرنا جائز کیسے ہو سکتا ہے؟

(ج) جو عورت مرد کے لیے حلال نہیں ہے اسے ہاتھ لگانا بہت سنگین جرم ہے جیسا کہ حدیث میں ہے حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر آدمی کے سر میں نوک دار لوہے سے سوراخ کر دیاجائے تو یہ اس بات سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت کو ہاتھ لگائے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔ [9]

 امام منذری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو بیہقی اور طبرانی کے حوالہ سے بیان کیا ہے اور طبرانی کے راویوں کو صحیح کے راوی قرار دیا ہے، اسی طرح علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو امام رویانی کے حوالہ سے بیان کیا ہے اور اس پر صحیح ہونے کا حکم لگایا ہے۔ [10] اس حدیث کی رو سے بھی اجنبی عورت کو ہاتھ لگانے کی حرمت ثابت ہوتی ہے، البتہ کسی ناگہانی ضرورت کے پیش نظر عورت کوہاتھ لگانے میں چنداں حرج نہیں مثلاً بیماری کی حالت میں ڈاکٹر یا طبیب کا نبض دیکھنا یا مکان کو آگ لگنے کی صورت میں اسے پکڑ کر مکان سے باہر نکالنا، لیکن پیار دیتے وقت اس کے سر کو ہاتھ لگانا کوئی حقیقی ضرورت نہیں۔ جو حضرات بزرگوں کے لیے اجنبی عورت کو پیار دینے کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں،ان کے پاس کوئی نقلی دلیلیں نہیں ہے البتہ وہ عقلی اعتبار سے کہتے ہیں کہ یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے جو معاشرہ کے رسم ورواج سے تعلق رکھتا ہے چونکہ شریعت نے اس سے منع نہیں فرمایا، اس لیے ایسا کرنا جائز ہے، پھر ایسا کرنے سے تبلیغ وغیرہ کا بھی موقع ملتا ہے کہ اگر وہ ننگے سر ہو تو سمجھایا جا سکتا ہے۔ شریعت نے معاشرہ میں رائج، معروف، کو بہت حیثیت دی ہے اس لیے اسے جائز ہونا چاہیے پھر ایسے موقع پر کسی قسم کے منفی جذبات ابھرنے کا موقع بھی نہیں ہوتا جن کے پیش نظر اسے ممنوع قرار دیاجاسکے، اگر ایسا اندیشہ ہو تو اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی موخرالذکر حدیث کا تعلق ایسے حالات سے ہے جب ہاتھ لگانے والا دل کا کوڑھا اور نیت میں فتور رکھتا ہو۔ ہم نے انتہائی دیانتداری کے ساتھ فریقین یعنی مانعین اور مجوزین کے دلائل قارئین کے سامنے رکھ دیے ہیں، ہمارا رجحان یہ ہے کہ تقویٰ اور پرہیزگاری کے پیش نظر اس سے اجتناب کیا جائے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے عمررسیدہ عورت کو پردہ کے سلسلہ میں کچھ نرمی دی ہے اس کے باوجود فرمایا ہے کہ اگر وہ اس نرمی کو استعمال کرنے سے پرہیز کریں تو یہی بات ان کے حق میں بہتر ہے۔[11] البتہ مجوزین حضرات کے موقف کو بالکل نظر اندازنہیں کیا جا سکتا اس کے پیش نظر اگر کوئی برخوردار عمر رسیدہ خاتون کے سامنے سر جھکا دے یا کوئی برخورداری اپنے کسی بزرگ کے سامنے پیار لینے کے لیے اپنا سر آگے کر دے تو ان کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہیے البتہ مسئلہ صحیح صورت حال سے انہیں ضرور آگاہ کر دیاجائے۔ ہمارے بعض خاندانوں میں ایسے موقع پر گلے ملنے کا رواج ہے اس کی کسی صورت میں اجازت نہیں دی جا سکتی اسی طرح سر پر ہاتھ پھیرتے وقت اگرکسی قسم کی شہوانی تحریک پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو بھی اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔


[1] صحیح بخاری، المرضی: ۵۶۷۰۔  

[2]  صحیح بخاری، الدعوات، باب نمبر: ۳۱۔

[3]  مسند امام احمد، ص: ۳۲، ج۴۔    

[4]  مسند امام احمد، ص: ۴۳۴، ج۲۔

[5] مسند امام احمد، ص: ۲۵۰، ج۵۔  

[6]  مسند امام احمد، ص: ۲۶۳، ج۲۔

[7] مسند امام احمد، ص: ۳۵۷، ج۶۔

[8]  صحیح بخاری، الشروط: ۲۷۱۳۔

[9]الترغیب والترہیب، ص: ۳۹، ج۳۔

[10]  الاحادیث الصحیحۃ، حدیث نمبر: ۲۲۶۔ 

[11]  ۲۴/النور: ۶۰۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:440

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ