سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(521) رقم لے کر گواہی دینا

  • 20170
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1623

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل عدالتوں میں دولت اور مال کی بنیاد پر گواہ مل جاتے ہیں، وہ پیسہ لے کر گواہی دیتے ہیں، اس قسم کی گواہی سے جو فیصلہ ہو گا اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا شریعت میں ایسی گواہی دینے کی گنجائش ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انسان نے جس چیز کے متعلق گواہی دینی ہو اس کے بارے میں ضروری ہے کہ وہ یقینی معلومات رکھتا ہو یا اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو، ظن وتخمین کی بنیاد پر یادیکھے بغیر کسی چیز کی گواہی دینا جھوٹی گواہی ہے، جس کی شریعت نے بہت مذمت کی ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبیرہ گناہوں کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔‘‘ [1]

 اﷲ تعالیٰ نے جھوٹی گواہی سے اجتناب کرنے کی تلقین کی ہے۔ (۲۲/الحج: ۳۰) پھر خود کو گواہی کے لیے پیش کرنا جبکہ اس سے کسی نے گواہی کا مطالبہ نہ کیا ہو، ایسا قرب قیامت کے وقت ہو گا۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سب سے بہتر میرا زمانہ ہے پھر ان لوگوں کا جوان کے قریب ہیںپھر جو ان کے قریب ہیں پھر ان کے بعد ایسے برے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو گواہی دیں گے لیکن ان سے گواہی کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہو گا، وہ خائن ہوں گے، امین نہیں ہوں گے وہ نذر مانیں گے لیکن اپنی نذر پوری نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہو جائے گا۔‘‘ [2]

 صورت مسؤلہ میں جس قسم کی گواہی کا ذکر ہے، مذکورہ حدیث میں اسی کا بیان ہے گویا حدیث میں اس قسم کے گواہوں کا ذکر کیا گیا ہے، اس گواہی کی بنیاد پرجو فیصلہ ہو گا شرعاً اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، جس شخص کے حق میں اس قسم کی گواہی کو بنیاد بنا کر فیصلہ کیا جائے، وہ شخص اپنے لیے فیصلہ شدہ چیز کو حلال خیال نہ کرے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تو صرف ایک انسان ہوں، تم لوگ میرے پاس اپنے جھگڑے لے کر آتے ہو اور تم میں سے کوئی اپنے دلائل بڑی خوبی اور چرب زبانی سے بیان کرتا ہے تو میں نے جو کچھ سنا ہوتا ہے، اس کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں، اسی بنیاد پر اگر میں کوئی چیز اس کے بھائی کے حق میں سے دوں تو میں اس کے لیے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔‘‘ [3]

 بہرحال صورت مسؤلہ میں بیان کردہ گواہی کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس بنیاد پر کیا ہوا فیصلہ بھی انتہائی مخدوش ہے۔ اور جس کے حق میں فیصلہ ہوا ہے اسے وہ چیز لینا حلال نہیں ہے۔


[1]  صحیح بخاری، الشہادات: ۲۶۵۳۔ 

[2]  صحیح بخاری، الرقاق: ۶۳۲۸۔

[3]  صحیح بخاری، المظالم: ۲۴۵۸۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:436

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ