سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(520) دو دعوے داروں کے مابین فیصلہ کرنا

  • 20169
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 607

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک چیز کے متعلق دو شخص دعوے دار ہیں اور دونوں کے پاس شواہد موجود ہیں، ایسے حالات میں شرعی فیصلہ کیسے کیا جائے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر ایک چیز کے متعلق دو دعوے دار ہوں اور دونوں کے پاس شواہد ہوں یا دونوں اپنا دعویٰ ثابت نہ کر سکتے ہوں تو ایسی صورت میں فقہاء کے دو مؤقف ہیں، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

٭ دونوں کے پاس دلائل ہوں یا نہ ہوں، فیصلے کی صورت یہ ہو گی کہ جس چیز کے متعلق دعویٰ کیا گیا ہے اسے دونوں کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دیا جائے گا، اس کی دلیل حسب ذیل واقعہ ہے۔

 رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں دو آدمیوں نے ایک اونٹ کے متعلق دعویٰ کیا پھر اس پر دونوں نے دو، دو گواہ پیش کر دئیے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دونوں کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دیا۔ [1]اسی طرح ایک اور حدیث ہے کہ ایک چیز کا دعویٰ کرنے والے دونوں آدمیوں کے پاس نہ تو کوئی ثبوت تھا اورنہ ہی وہ کوئی گواہ پیش کر سکے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کو دونوںکے درمیان نصف نصف تقسیم کر دیا۔[2] لیکن ان دونوں روایات کو علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔[3]

٭ اس سلسلہ میں دوسرا موقف یہ ہے کہ مدعیان کے درمیان قرعہ اندازی کی جائے گی۔ جس کے نام قرعہ نکل آئے گا وہ قسم اٹھا کر وہ چیز لے لے گا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی معاملہ میں ایک قوم پر قسم پیش کی تو وہ فوراً قسم اٹھانے کے لیے تیار ہو گئے۔ آپ نے حکم دیا کہ ان کے درمیان قرعہ اندازی کی جائے تاکہ جس کے نام قرعہ نکل آئے وہ قسم اٹھا کر اس چیز کا حق دار بن جائے۔ [4] اس مؤقف کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں یہ مذکور ہے کہ دو آدمی ایک چیز کے متعلق جھگڑ پڑے ان میں سے کسی کے پاس گواہ نہیں تھا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ قسم دینے کے لیے قرعہ اندازی کر لیں۔ [5] اس کی صورت بھی یہ ہے کہ ایک چیز کے متعلق دو آدمی دعوے دار ہیں لیکن وہ چیز کسی کے پاس نہیں اور نہ ہی اس کا کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو ایسے حالات میں ان دونوں کے لیے قرعہ اندازی کی جائے گی پھر جس کے نام قرعہ نکل آئے وہ قسم کے ذریعے اس چیز کا حقدا ر ہو گا۔ ہمارے رجحان کے مطابق آخری مؤقف صحیح ہے اور صحیح احادیث کے عین مطابق ہے۔ (واﷲ اعلم)


[1] ابو داود، القضاء: ۳۶۱۵۔

[2]  مسند امام احمد، ص: ۴۰۲، ج۴

[3]  ارواء الغلیل، ص: ۲۷۶، ۲۷۷، ج۲۔

[4]  ارواء الغلیل، ص: ۲۷۶، ۲۷۷، ج۲۔

[5] ابو داود، القضاء: ۳۶۱۶۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:435

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ