السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں سعودیہ میں رہتا ہوں، میں نے وہاں رہتے ہوئے ایک پلاٹ خریدا تھا، جس پر میرے والد نے قبضہ کر لیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ حدیث کے مطابق ’’تیرے مال میں میرا حق ہے۔‘‘ کیا اس طرح کی کوئی حدیث ہے؟ اس کے متعلق وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں اپنے حقوق کا ذکر کیا ہے وہاں والدین کے حقوق بھی بیان کیے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ وَ بِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا١﴾[1]
’’تیرے رب نے فیصلہ کیاہے کہ خاص اسی کی عبادت کرو اور والدین کے ساتھ احسان کرو۔‘‘
احسان میں یہ چیز شامل ہے کہ والدین کو بوقت ضرورت خرچہ وغیرہ مہیا کیا جائے، ایک دوسرے مقام پر اﷲ تعالیٰ نے اولاد کو حکم دیا ہے:
﴿وَ صَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا﴾[2]
’’دنیا میں معروف طریقہ سے ان کا ساتھ دو۔‘‘
دنیاوی ضروریات نفقہ واخراجات کے بغیر پوری نہیں ہو سکتیں، ان آیات کے پیش نظر ضروری ہے کہ ایسے تنگ دست والدین جن کا کوئی ذریعہ معاش نہ ہو اور نہ ہی ان کے پاس کوئی مال ودولت ہو، انہیں اولاد کے مال سے خرچہ مہیا کیا جائے، احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ والد اپنی اولاد کے مال سے اپنی جائز ضروریات پوری کرنے کا حقدار ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بہترین مال جو تم کھاؤ وہ تمہارا کمایا ہو امال ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی سے ہے۔‘‘ [3]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ باپ کے لیے اپنی اولاد کے مال سے لینا، اس سے اپنی ضروریات پورا کرنا جائز ہے نیز رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’تو خود اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔‘‘ [4]
سوال میں شاید اسی حدیث کی طرف اشارہ ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص اپنے باپ کو لے کر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس سے اپنے قرض کی واپسی کا تقاضا کرنے لگا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔ [5]
باپ کو اپنی ذاتی ضروریات کے لیے بیٹے کا مال لینا جائز ہے خواہ وہ پلاٹ کی شکل میں ہو۔ بصورت دیگر باپ اپنے بیٹے کے مال کو بلا اجازت لینے کا مجاز نہیں ہے۔ (واﷲ اعلم)
[1] ۱۷/الاسراء: ۲۳۔
[2] ۳۱/لقمان: ۱۵۔
[3] جامع ترمذی، الاحکام: ۱۳۵۸۔
[4] ابو داود، البیوع: ۳۵۳۰۔
[5] صحیح ابن حبان، ص: ۲۲۶، ج۷ حدیث نمبر: ۴۲۴۵
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب