سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(517) روز قیامت ماں کے نام سے پکارنا

  • 20166
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 778

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سنا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ماں کے نام سے پکارا جائے گا۔ اس میں کیا حکمت ہے کیا واقعی لوگوں کو ماں کے نام سے آواز دی جائے گی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’قیامت کے دن لوگوں کو ان کے باپوں کے ساتھ پکارا جائے گا۔ [1] پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن ہر غدار کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا پھر پکارا جائے گا۔ یہ فلاں کے بیٹے فلاں کی دغا بازی اور غداری کا نشان ہے۔[2]ایک حدیث جسے حضرت ابوالدردا رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن تمہیں تمہارے ناموں اور تمہارے باپوں کے نام سے پکارا جائے گا، لہٰذا تم اپنے لیے اچھے نام کا انتخاب کیا کرو۔‘‘ [3]

 علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صحیح اور صریح سنت سے جو بات ثابت ہے وہ یہی ہے کہ مخلوق کو قیامت کے دن ان کے باپوں کے نام سے پکارا جائے گا اور ان کی ماؤں کے نام سے نہیں پکارا جائے گا۔ [4] کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا میں کچھ بچے غلط کاری کا نتیجہ ہیں جبکہ ان کا کوئی قصور نہیں ان پر پردہ رکھنےکے لیے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ماؤں کے نام سے آواز دیں گے، اس سلسلہ میں ایک روایت کا بھی سہارا لیا جاتا ہے جسے مجمع الزوائد میں طبرانی کے حوالہ سےبیان کیا گیا ہے۔ [5] ناجائز اولاد پر پردہ داری والی بات تو دنیا میں تو ان کا راز فاش ہو چکا ہے، اب قیامت کے دن ان پر پردہ پوشی کی کیا ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی خاطر اپنے ضابطہ کو تبدیل کر دے؟ بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق قیامت کے دن ہر انسان کو اس کے باپ کے نام سے ہی پکارا جائے گا، ماں کی طرف اس کی نسبت کرنا خلاف عقل و نقل ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] کتاب الادب باب نمبر۹۹۔  

[2]  صحیح بخاری، الادب: ۶۱۷۷۔

[3]  ابوداود، الادب: ۴۹۴۸۔

[4] تحفہ المودود، ص: ۱۳۹۔  

[5] مجمع الزوائد،ص: ۴۵،ج۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:431

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ