السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اونٹ کی قربانی میں کتنے حصے ہیں، ہمارے حضرات کا کہنا ہے کہ اس میں بھی گائے کی طرح سات حصے ہوتے ہیں جبکہ قبل ازیں ہم اونٹ میں دس حصے رکھتے تھے، قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قربانی کے لیے جو جانور ذبح کیے جاتے ہیں ان کی دو اقسام ہیں۔ 1) ہدی 2 )اضحیہ
ہدی: وہ جانور ہے جو حرم کی طرف لایا جائے اور حرم میں ہی ذبح کیا جائے، یہ مناسک حج سے ہے۔
اضحیہ: اس جانور کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے عید اور ایام تشریق میں ذبح کیا جائے۔
اگر اونٹ کو ہدی کے طور پر ذبح کرنا ہے تو اس میں سات حصے ہو سکتے ہیں جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا: ’’ہم اونٹ اور گائے کی قربانی میں سات سات افراد شریک ہو جائیں۔‘‘ [1]
واضح رہے کہ مذکورہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر دیا تھا جیسا کہ حدیث کے آغاز سے معلوم ہوتا ہے اگر اونٹ کو بطور اضحیہ ذبح کرنا ہے تو اس میں دس حصوں کی گنجائش ہے جیسا کہ حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سفر میں تھے تو قربانی کا وقت آگیا، ہم اونٹ میں دس آدمی اور گائے میںسات آدمی شریک ہوئے۔[2]
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی ایک روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا تھا۔ [3]
کچھ علما کا یہ موقف ہے کہ اللہ کی طرف سے ایک اونٹ میں دس یا سات آدمیوں کی شرکت ایک رخصت ہے، یعنی اونٹ میں دس آدمی بھی شریک ہو سکتے ہیں اور سات بھی، ویسے اگر استطاعت ہو تو اکیلا آدمی بھی ایک اونٹ یا گائے کی قربانی کر سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ازواج مطہرات کی طرف سے ایک گائے ذبح کی تھی۔[4]
بہرحال عید الاضحی کے موقع پر قربانی دینے کے لیے ایک اونٹ میں دس آدمی شریک ہو سکتے ہیں، اگر اونٹ میں سات حصے رکھے جائیں تو بھی جائز ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] صحیح مسلم، الحج: ۱۲۱۳۔
[2] ابن ماجہ، الاضاحی: ۳۱۳۱۔
[3]صحیح بخاری، الشرکۃ: ۲۵۰۷۔
[4] ابن ماجہ، الاضاحی: ۳۱۳۵۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب