السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا عقیقہ کے لیے بکری کی جنس ضروری ہے یا گائے، اونٹ بھی عقیقہ کے لیے ذبح کرنا جائز ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں ہماری راہنمائی فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عقیقہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ لڑکا ہو تو اس کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے۔ [1]عربی زبان میں ’’شاۃ‘‘ کا لفظ بھیڑ اور بکری دونوں پر بولا جاتا ہے، اس میں دنبہ بھی شامل ہے، حضرت ام کرز رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم پر کوئی ضروری نہیں کہ عقیقہ کے جانور نر ہوں یا مادہ۔‘‘ [2]
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے عقیقہ میں بھیڑ بکری نر مادہ دونوں جائز ہیں، عقیقہ میں گائے یا اونٹ ذبح کرنے کے متعلق جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ گائے یا اونٹ ذبح کیا جا سکتا ہے۔[3] جمہور کی طرف سے ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ بچے کی طرف سے اونٹ، گائے اور بکری سے عقیقہ کیا جا سکتا ہے۔ [4] لیکن یہ روایت انتہائی کمزور ہے، اس میں ایک مسعدہ بن یسع نامی راوی، محدثین کے ہاں ضعیف ہے، امام بیہقی فرماتے ہیں کہ اس کی سند میں مسعدہ بن یسع راوی کذاب ہے۔[5]
ہمارے رجحان کے مطابق صحیح روایات میں لفظ شاۃ آیا ہے جو بھیڑ اور بکری کو شامل ہے، لہٰذا بہتر ہے کہ عقیقہ کرتے وقت انہی جانوروں پر اکتفا کیا جائے، اونٹ ذبح کرنے کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کراہت منقول ہے چنانچہ ام المومنین کے بھائی حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہا کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو کسی نے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا آپ اپنے بھتیجے کی طرف سے اونٹوں کا عقیقہ کریں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ کی پناہ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایسا نہیں فرمایا، آپ نے تو شاتان فرمایا ہے، میں تو وہی کام کروں گی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔‘‘ [6]
اونٹ کے عقیقہ کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے معاذ اللہ پڑھ کر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی عقیقہ کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کے فرمان کو پیش نظر رکھنا چاہیے چونکہ صحیح احادیث میں صرف بھیڑ بکری کا ذکر ملتا ہے لہٰذا عقیقہ میں صرف انہی جانوروں کو ذبح کیا جائے۔ (واللہ اعلم)
[1] جامع ترمذی، الاضاحی: ۱۵۱۳۔
[2] جامع ترمذی، الاضاحی: ۱۵۱۶۔
[3] نیل الاوطار، ص: ۵۰۶،ج۳۔
[4] طبرانی صغیر،ص: ۸۴،ج۱۔
[5] مجمع الزوائد، ص: ۶۱،ج۴۔
[6] بیہقی، ص: ۳۰،ج۹۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب