السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بچے کی پیدائش پر عقیقہ کرنے کے بجائے اگر اس کی قیمت کسی غریب کو دے دی جائے تاکہ وہ اپنی اس رقم سے کوئی ضرورت پوری کرے تو کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں راہنمائی کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عقیقہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ہر بچہ اپنے عقیقہ کے عوض گروی ہوتا ہے، پیدائش کے ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جائے، اس کا نام رکھا جائے اور سر کے بال منڈوائے جائیں۔‘‘ [1]
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اولاد ایک بہت بڑی نعمت ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت کا شکر ادا کرنا ضروری قرار دیا ہے، اس لیے شریعت نے بچے کی پیدائش کے ساتویں روز عقیقہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ اللہ کی نعمت کے حصول پر اس کا شکر بھی ادا ہو جائے اور اقرباء اور دوست و احباب کی ضیافت کے ساتھ ساتھ غرباء اور مساکین کا بھی فائدہ ہو جائے۔ ہمارے رجحان کے مطابق جانور کی قیمت کسی غریب کو دینے کے بجائے جانور ہی ذبح کرنا چاہیے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور ہی ذبح کرنے کا حکم دیا ہے اور عملی طور پر حضرت حسن اور حضرت حسینرضی اللہ عنہ کی پیدائش پر جانور ہی ذبح کیے تھے، اس کے متعلق روایات میں بہت تاکید آئی ہے، اس لیے ولیمہ اور قربانی کی طرح جانور کو ذبح کرنا ہی افضل ہے۔ اتباع سنت کا یہی تقاضا ہے کہ عقیقہ کی رقم کسی کو دینے کی بجائے جانور ہی ذبح کیا جائے۔ (واللہ اعلم)
[1] ابوداود، الضحایا: ۲۸۳۹۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب