سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(481) بھینس کی قربانی

  • 20130
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 732

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے علاقہ میں بھینس کی قربانی بکثرت کی جاتی ہے حالانکہ دوسرے جانور دستیاب ہوتے ہیں، اس کے متعلق ہماری رہنمائی کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن کریم کے مطابق ایسے جانوروں کی قربانی دینی چاہیے جن پر ’’بہیمۃ الانعام‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ١﴾ [1]

’’ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر کیے ہیں تاکہ وہ مویشی قسم کے ان چوپائیوں پر اللہ تعالیٰ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔‘‘

 اور الانعام میں چار قسم کے نر اور مادہ جانور شامل ہیں۔

 1)اونٹ، 2)گائے،3)بھیڑ (دنبہ)  4)بکری۔

 قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ یہ چوپائے آٹھ قسم کے ہیں یعنی دو، دو بھیڑوں میں سے اور دو، دو بکریوں میں سے (نر اور مادہ)… اور دو، دو، اونٹوں دو گائیوں میں سے (نر اور مادہ)[2]

 ہمارے رجحان کے مطابق قربانی کے سلسلہ میں صرف انہی جانوروں پر اکتفاء کیا جائے جن پر بہیمۃ الانعام کا لفظ بولا جا سکتا ہے اور وہ صرف اونٹ، گائے، بھیڑ (دنبہ) اور بکری ہیں۔ چونکہ بھینس ان جانوروں میں شامل نہیں ہے لہٰذا اس سے اجتناب بہتر ہے۔ اس لیے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھینس کی قربانی ثابت نہیں ہے اور جو اہل علم بھینس کی قربانی کے قائل اور فاعل ہیں وہ صرف یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ بھینس کو گائے کی جنس کہتے ہیں یا گائے پر اسے قیاس کرتے ہیں حالانکہ بھینس ایک الگ جنس ہے۔ ان کے دودھ اور گوشت کی تاثیر بھی الگ الگ ہے پھر قیاس کے لیے کوئی علت مشترک ہونی چاہیے جو ان میں نہیں پائی جاتی۔ ہم کہتے ہیں کہ گائے کی قربانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، عمل اور تقریر تینوں طریقوں سے ثابت ہے لہٰذا گائے، اونٹ اور بکری کی ہی قربانی دی جائے، حافظ عبداللہ روپڑی مرحوم نے اس سلسلہ میں بڑا اچھا مؤقف اختیار کیا ہے کہ قربانی کے سلسلہ میں احتیاط اور واضح موقف یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ دی جائے بلکہ مسنون قربانی اونٹ، گائے، بھیڑ، (دنبہ) اور بکری سے کی جائے۔ جب یہ جانور دستیاب ہیں تو ان کے ہوتے ہوئے مشتبہ امور سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ’’ دع ما یریبك الی ما لا یریبك ‘‘ (واللہ اعلم)


[1] ۲۲/الحج:۳۴۔

[2] ۶/الانعام: ۱۴۳،۱۴۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:404

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ