السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے علاقے میں ایک بیع ہے جس کی صورت یہ ہے کہ زید کے پاس ۱۰ بکریاں ہیں اور ان کی صحیح قیمت (۱۰۰۰۰)دس ہزار ہے تو زید یہ بکریاں عمرو کو دیتا ہے اور ان کی رقم (۱۰۰۰۰) دس ہزار عمرو زید کو ان کے نر بکرے جو ہوں گے ان کو بیچ کر ادا کرے گا۔ اس کے بعد ان تمام بکریوں اور ان کے بچوں میں آدھا حصہ زید کا اور آدھا حصہ عمرو کا ٹھہرے گا یعنی دس سے بڑھ کر ۲۰ ہوئی ہوں تو دس بکریاں زید کی ہوں گی اور دس بکریاں عمرو کی ہوں گی ۔ اس مسئلہ کا حل قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے بیع کی جس صورت کے متعلق سوال فرمایا بیع کی وہ صورت ناجائز ہے۔
اولاً: اس لیے کہ اس میں طے کر لیا گیا ہے’’ ان کی رقم (۱۰۰۰۰) دس ہزار عمرو زید کو ان کے نر بکرے جو ہوں گے ان کو بیچ کر ادا کرے گا‘‘ اور یہ جاہلیت کی بیع حبل الحبلۃ سے ملتی جلتی شکل ہے جبکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے ’’رسول اللہﷺنے بیع حبل الحبلۃ سے منع فرمایا ہے‘‘ ۔
ثانیاً: اس لیے کہ اس میں دو شرطیں پائی جاتی ہیں ایک نر بکرے جو ہوں گے الخ دوسری آدھے حصے والی ادھر ابوداود ، ترمذی اور نسائی میں ہے ’’رسول اللہﷺ نے فرمایا ایک بیع میں دو شرطیں حلال نہیں‘‘۔
ثالثاً : اس لیے کہ یہ ایک بیع دو بیعوں پر مشتمل ہے ایک نقد دس ہزار اور دوسری ادھار دس ہزار مع بکریوں کا آدھا حصہ جبکہ رسول اللہﷺ نے ایک بیع میں دو بیعوں سے منع فرمایاہے۔ ابوداؤد،ترمذی اور نسائی
رابعاً : اس لیے کہ یہ سود پر مشتمل ہے رسول اللہﷺ کا فرمان ہے :
«مَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِیْ بَيْعَةٍ فَلَهُ أَوْکَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا»ابوداؤد
’’جو ایک بیع میں دو بیعیں کرتا ہے پس اس کے لیے دونوں سے کم ہے یا سود ہے‘‘ اب ظاہر ہے کہ دس ہزار تو بکریوں کی قیمت ہے اور کچھ مدت کے بعد دس ہزار مع نصف بکریاں وصول کرنے میں نصف بکریاں سود کے زمرہ میں ہی شامل ہوں گی اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیکی کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین ۔ تو ان چار وجوہ کی بنا پر بیع ناجائز اور حرام ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب