سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(480) قربانی نہ کرنے والے کے لیے ناخن اور بال کاٹنا

  • 20129
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1882

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جو شخص قربانی نہ کرنا چاہتا ہو کیا اس پر ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد ناخن اور بال کاٹنے کی پابندی ہے؟ قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس شخص نے قربانی کرنی ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بال اور اپنے ناخن کاٹے جب کہ ماہ ذوالحجہ کا چاند طلوع ہو چکا ہو تاآنکہ وہ قربانی کر لے جیسا کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کوئی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بال اور ناخن کاٹنے سے رُک جائے۔[1]

 ایک دوسری روایت میں مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کے پاس قربانی کا کوئی جانور ہو، وہ ذوالحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد قربانی کر لینے تک ہرگز اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ [2]

 ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کرنے والے کے لیے ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی ذبح کرنے تک اپنے بال یا ناخن کاٹنا حرام ہے اگرچہ کچھ علماء اس کے متعلق کچھ نرم گوشہ رکھتے ہیں تاہم بیان کردہ مؤقف ہی اقرب الی الحدیث ہے لیکن جس شخص نے قربانی نہیں کرنی ہے، اس پر اس قسم کی پابندی لگانا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ قربانی کا اجر حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ عید کے دن اپنے بال اور ناخن کاٹ لے، اپنی مونچھیں پست کرے اور زیر ناف بال بھی صاف کرے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے یوم الاضحی کو عید منانے کا حکم دیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے مقرر فرمایا ہے، ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر مجھے قربانی کے لیے دودھ دینے والے جانور کے علاوہ کوئی دوسرا جانور میسر نہ آئے تو کیا میں اسے ذبح کر دوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں لیکن عید کے دن تم اپنے بال اور ناخن تراش لینا، اپنی مونچھیں کاٹ لینا اور زیر ناف بال مونڈ لینا، اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ تیری مکمل قربانی ہو جائے گی۔ [3]

 اگرچہ کچھ محققین نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے تاہم یہ حسن درجہ کی ہے اور فضائل اعمال میں اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ (واللہ اعلم)


[1]  صحیح مسلم، الاضاحی: ۵۵۶۹۔  

[2] مستدرک حاکم، ص: ۲۲۰،ج۴۔

[3] ابوداود، الضحایا: ۲۷۸۹۔ 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:403

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ