السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا غائبانہ طور پر کسی شخص کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے جبکہ دوسرے شخص کو اس کا علم بھی نہ ہو، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اپنے علاوہ کسی زندہ شخص کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی تھی۔[1] جس زندہ کی طرف سے قربانی کی جائے اسے بتانا یا اس کے علم میں لانا ضروری نہیں کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ہم منیٰ میں خیمہ زن تھے کہ میرے پاس گائے گا گوشت لایا گیا، میں نے اس کے متعلق دریافت کیا تو مجھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے گائے کی قربانی دی ہے۔[2]اس حدیث سے معلوم ہو اکہ زندہ افراد کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے، ایک دوسری حدیث میں بھی کی اس وضاحت ہے۔ حضرت عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے قربانی کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں آدمی اپنی طرف سے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے ایک بکری ذبح کرتا تھا جسے وہ یعنی اہل خانہ خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے تھے۔ [3]
بہرحال شریعت میں یہ مسئلہ ثابت ہے کہ اگر کوئی شخص، زندہ افراد یعنی گھر والے یا دوست احباب کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے اور جس کی طرف سے قربانی کی جاتی ہے اسے علم ہونا ضروری نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] صحیح بخاری، الاضاحی: ۵۵۵۹۔
[2] صحیح بخاری: ۵۵۴۸۔
[3] ترمذی، الاضاحی: ۱۵۰۵۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب