سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(478) ناجائز آمدن سے قربانی کرنا

  • 20127
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1169

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا سود، رشوت اور دیگر ناجائز ذرائع سے حاصل شدہ رقم سے قربانی کرنا جائز ہے، کیا ایسا کرنے سے قربانی کرنے والے کو کوئی ثواب ملے گا؟۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قربانی کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ پاکیزہ اور حلال مال سے خریدی گئی ہو جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’لوگو! اللہ تعالیٰ پاک ہے اور صرف پاکیزہ چیز کو ہی قبول کرتا ہے۔ [1]

 نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وضو کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور نہ ہی صدقہ خیانت کے مال سے قبول ہوتا ہے۔ [2]

 اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جیسے وضو کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی، اسی طرح حرام مال سے کیا صدقہ بھی قبول نہیں ہوتا۔ سود کا مال بھی حرام ہے، اللہ تعالیٰ نے سود سے باز نہ آنے والوں کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ۚ ﴾[3]

’’اگر تم سود سے باز نہیں آؤ گے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔‘‘

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے، کھلانے، لکھنے اور اس کے متعلق گواہی دینے والے کو ملعون قرار دیا ہے۔ [4]

 اسی طرح رشوت اور دیگر ناجائز ذرائع کا معاملہ ہے، یہ سب حرام ہیں اور حرام مال سے خریدی ہوئی قربانی قبول نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو طویل سفر کرتا ہے، جس کا سر پراگندہ اور قدم غبار آلود ہیں وہ اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر دعا کرتا ہے اور کہتا ہے: اے میرے پروردگار! جبکہ اس کا کھانا پینا حرام، اور حرام مال سے اسے غذا ملی ہے ایسے حالات میں اس کی دعا کیسے قبول کی جائے؟ [5]

 ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کو حلال مال کا اہتمام کرنا چاہیے اور حلال مال سے ہی قربانی خرید کر اللہ کی خاطر اسے ذبح کرنا چاہیے۔ حرام مال سے خرید کردہ قربانی نہ صرف رد کر دی جائے گی بلکہ قیامت کے دن اس کے لیے وبال جان بن جائے گی۔ (واللہ اعلم)


[1] مسلم، الزکوٰۃ: ۲۳۴۶۔            

[2] مسلم، الطہارۃ: ۵۳۵۔  

[3]  ۲/البقرۃ: ۲۷۹۔

[4]  صحیح مسلم، البیوع: ۴۰۹۳۔    

[5]     مسلم، الزکوٰۃ: ۲۳۴۶۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:402

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ