السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے معاشرہ میں بچی کی پیدائش کو اچھا خیال نہیں کیا جاتا بلکہ بعض دفعہ عورت کو بچیاں جنم دینے کی سزا میں طلاق دے دی جاتی ہے،ہماری اس سلسلہ میں راہنمائی کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بچی یا بچے کی پیدائش میں انسان بے بس ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ١ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ الذُّكُوْرَۙ۰۰۴۹ اَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًا١ۚ وَ يَجْعَلُ مَنْ يَّشَآءُ عَقِيْمًا١ ﴾[1]
’’آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹوں سے نوازتا ہے اور جسے چاہے بیٹے اور بیٹیاں دونوں عطا کردیتا ہے اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے۔ ‘‘
ہمارے معاشرہ میں بچی کی پیدائش پر اظہار ناپسندیدگی جاہلیت کا فعل ہے، اسلام نے اس کی حوصلہ شکنی کی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِيْمٌۚ۰۰۵۸ يَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ١ اَيُمْسِكُهٗ عَلٰى هُوْنٍ اَمْ يَدُسُّهٗ فِي التُّرَابِ١ اَلَا سَآءَ مَا يَحْكُمُوْنَ﴾[2]
’’ان میں سے جب کسی کو لڑکی پیدا ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل میں گھٹنے لگتا ہے، اس ’’بری‘‘ خبر کی وجہ سے لوگوں میں چھپنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ اس ذلت کو برداشت کیے رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے، یہ لوگ کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں۔‘‘
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بچی کی پیدائش پر غمگین اور پریشان ہونا ایک مسلمان کا کام نہیں بلکہ دور جاہلیت کا فعل ہے، جسے اسلام پسند نہیں کرتا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچیوں کو اللہ کی رحمت قرار دیا ہے، ان کی اچھی پرورش اور تربیت کے نتیجہ میں جنت کی بشارت دی ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ایک عورت اپنی بچیوں کو ساتھ لیے مجھ سے کچھ مانگنے کے لیے آئی، میرے پاس اس وقت صرف ایک کھجور تھی، میں نے وہی اسے دے دی، اس نے کھجور کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اپنی بچیوں کو دے دی اور خود نہ کھائی، اس کے بعد وہ اٹھ کر چلی گئی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ واقعہ سنایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے ان بچیوں کی وجہ سے خود کو کسی آزمائش میں ڈالا تو وہ اس کے لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گی۔‘‘ [3]
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس آدمی کی تین بیٹیاں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیںہوں، وہ ان کےمعاملہ میں اللہ سے ڈرے اور ان سے اچھا سلوک کرے تو اللہ تعالیٰ اس آدمی کو جنت میں داخل کرے گا۔‘‘ [4]
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے عجیب انداز میں اس عمل کی فضیلت بیان فرمائی: ’’جس شخص نے دو بیٹیوں کی پرورش کی تاآنکہ وہ بالغ ہو گئیں تو وہ شخص اور میں قیامت کے دن اس طرح آئیں گے، پھر آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھانے کے لیے دو انگلیوں کو ملا لیا۔ [5]بہرحال بچیوں کی پیدائش پر ناراض ہونا، بیوی کو برا بھلا کہنا یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اس کے فیصلہ سے خفا ہونا ہے، یہ انداز ایک مسلمان کے شایان شان نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] ۴۲/الشوریٰ:۴۹۔۵۰۔
[2] ۱۶/النحل: ۵۸۔۵۹۔
[3] صحیح بخاری، الزکوٰۃ: ۱۴۱۸۔
[4] مسند امام احمد،ص: ۴۲،ج۳۔
[5] مسند امام احمد،ص: ۱۷۴،ج۳۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب