سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(473) نومولود کو گھٹی دینا

  • 20122
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-19
  • مشاہدات : 3577

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں نومولود کو گھٹی دی جاتی ہے، اس کا کیا مقصد ہوتا ہے اور کیا طریق کار ہے، کیا یہ ضروری ہے کہ کسی نیک سیر ت انسان سے گھٹی دلوائی جائے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

گھٹی کی تعریف یہ ہے کہ کوئی نیک سیرت آدمی کھجور یا اس جیسی کوئی میٹھی چیز چبائے، جب وہ باریک ہو جائے تو بچے کا منہ کھول کر اس کے حلق سے چپکا دی جائے تاکہ وہ اس کے پیٹ میں پہنچ جائے۔ یہ عمل مسنون اور مستحب ہے، مدنی زندگی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کا بایں طور پر اہتمام کرتے تھے کہ ان کے ہاں جب بھی بچہ پیدا ہوتا تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھٹی دلواتے، تاکہ آیندہ اس نومولود میں اس نیک سیرت انسان کی جھلک نظر آسکے، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے:

1) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو میں اسے لےکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور کھجور کو اپنے منہ میں چپا کر نرم کیا پھر اسے نومولود کے منہ میں رکھا اور اس کے لیے خیر و برکت کی دعا کی۔ [1]

2) جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے انہیں لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں رکھ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور منگوائی پھر اسے چبایا اور اسے نومولود کے منہ میں رکھ دیا۔ چنانچہ پہلی چیز جو بچے کے پیٹ میں گئی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب مبارک تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے خیر و برکت کی دعا فرمائی۔ [2]

3) حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا اور ساتھ کھجوریں بھی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کو منہ میں رکھ کر چبایا پھر انہیں اپنے منہ سے نکال کر بچے کے منہ میں رکھ دیا اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔

 امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے گھٹی کے عمل کو ثابت کیا ہے، وہ یہ ہے کہ کھجور یا کوئی بھی میٹھی چیز کوچبا کر نرم کر کے نومولود کے منہ میں ڈالنا، اس کا مقصد ایمان کی نیک فال لینا ہے کیونکہ کھجور کے درخت کو مومن سے تشبیہ دی گئی ہے پھر میٹھی چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پسند بھی کرتے تھے، لہٰذا اسی عمل سے حلاوت ایمان کے لیے نیک فال لینا ہے، خصوصاً گھٹی دینے والا نیک سیرت اور اچھی شہرت کا حامل ہو۔ بازار سے ’’ہمدرد گھٹی‘‘ بھی دستیاب ہے، لوگ اس سے گھٹی کا کام نکال لیتے ہیں لیکن یہ تو پیٹ کی صفائی کے لیے ہوتی ہے، اس سے مسنون گھٹی کا کام نہیں لیا جا سکتا، ہاں اگر کوئی نیک آدمی اسے اپنے منہ میں ڈال کر پھر نومولود کے منہ میں ڈالے تو صحیح ہے، بہرحال گھٹی کے لیے دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔

 کھجور یا کوئی بھی میٹھی چیزشہد وغیرہ۔ کسی بزرگ کا انتخاب، وہ بزرگ اس میٹھی چیز کو پہلے اپنے منہ میں رکھے پھر اسے نومولود کے منہ میں ڈالے اور اس کے لیے خیر و برکت کی دعا کرے، امت کے اہل علم کا اس امر پر اتفاق ہے کہ بچے کی ولادت کے موقع پر کھجور کے ساتھ گھٹی دینا مستحب عمل ہے اگر کھجور نہ مل سکے تو کسی بھی میٹھی چیز سے یہ عمل کیا جا سکتا ہے لیکن یہ کام کسی نیک سیرت، بزرگ انسان سے کرایا جائے۔


[1] صحیح بخاری، العقیقہ: ۵۴۶۷۔ 

[2] صحیح بخاری، العقیقہ: ۵۴۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:396

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ