السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں شادی کے بعد سعودیہ چلا گیا جبکہ میری بیوی حاملہ تھی، جب اس نے بچی کو جنم دیا تووہ دوران زچگی فوت ہو گئی، بچی اپنی نانی کے پاس رہی، میں چند دن کے بعد واپس آیا تو اپنی بیٹی کو اپنے پاس لے آیا، سسرال والوں نے عدالت میں مقدمہ کر دیا ہے،آپ وضاحت فرمائیں کہ بچی کے متعلق کون زیادہ حق دار ہے؟ میں بحیثیت باپ اس کی پرورش و تربیت خود کرنا چاہتا ہوں، قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نوزائیدہ بچہ اپنی پرورش و تربیت میں دوسروں کا محتاج ہے اور مہلک و ضرر رساں اشیاء سے بچاؤ میں وہ خود کفیل نہیں‘ اس لیے ضروری ہے کہ جس میں بچے کے لیے بہتری اور خیر خواہی کا پہلو زیادہ ہو اسے اختیار کرنا چاہیے۔ اگر باپ کے مقابلہ میں ماں زیادہ صحیح تربیت اور اچھی طرح پرورش کر سکتی ہو نیز وہ غیرت مند عورت ہو تو ماں کو باپ پر ترجیح دی جائے گی اور اگر اس کے برعکس باپ میںیہ اوصاف موجود ہوں تو بچہ باپ کے حوالے کر دیا جائے گا، پھر وہی اس کی تربیت کا حقدار ہو گا۔ بہرحال بچے کی خیر خواہی اور بہبود کو مد نظر رکھنا ہو گا کیونکہ بچہ کم عقل اور نا عاقبت اندیش ہوتا ہے، چونکہ بچے کی پرورش و تربیت کے سلسلہ میں ماں زیادہ رحم دل اور بچے پر شفقت کرنے والی ہوتی ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کو یہ حق دیا ہے کہ بچے کی پرورش کرے۔ چنانچہ ایک ماں نے بچے کی پرورش کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے خاوند نے مجھے طلاق دے دی ہے اور مجھ سے اس بچے کو چھینتا ہے حالانکہ میرا پیٹ بچے کے لیے برتن، میری چھاتی اس کے لیے مشکیزہ اور میری آغوش اس کے لیے جائے قرار تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تک تو دوسرا نکاح نہیں کرتی، اس وقت تک تو ہی اس کی زیادہ حقدار ہے۔‘‘[1]
واضح رہے کہ ماں کا یہ استحقاق عقد ثانی سے پہلے ہے، جب وہ نکاح کرے گی تو اس کا یہ حق ساقط ہو جائے گا۔ کیونکہ عقد ثانی کے بعد اس کی مصروفیات بچے کی پرورش اور تربیت میں حائل ہو جائیں گی اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ماں کے ہاں ماحول اچھا نہیں، بچے پر برے اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے تو اسے بچے کی تربیت و پرورش کا حق نہیں دیا جائے گا، کیونکہ مقصد بچے کی تربیت و بہبود ہے، یہی وجہ ہے کہ ماں کی عدم موجودگی میں شریعت نے خالہ کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنے بھانجے یا بھانجی کی پرورش کرے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ کی بیٹی کا فیصلہ اس کی خالہ کے حق میں دیا تھا اور فرمایا کہ خالہ، ماں کے درجہ میں ہے۔ [2]
بچے کی صحیح پرورش اور اچھی تربیت کے پیش نظر ہم کہتے ہیں کہ اگر ماں کے ہاں ماحول اچھا نہ ہو یا وہ آگے نکاح کر لیتی ہے یا اس کی عدم موجودگی میں خالہ بھی صحیح خیال نہیں رکھ سکتی تو بچہ باپ کی کفالت و پرورش میں رہے گا۔ صورت مسؤلہ میں ماں فوت ہو چکی ہے، اب دیکھا جائے اور حالات کا جائزہ لیا جائے کہ بچی کی صحیح پرورش کہاں ہو سکتی ہے اور اس کی صالح تربیت کے مواقع کہاں میسر ہیں، اگر نانی کے ہاں ایسے مواقع ہیں تو بچی کو اس کے ہاں رہنے دیا جائے اور اگر اس کے برعکس وہاں ماحول خراب ہے یا بچی کی پرورش کا وہاں صحیح بندوبست نہیں تو بچی کو باپ کے پاس رہنے دیا جائے۔ واضح رہے کہ یہ استحقاق پرورش اس بچے کے متعلق ہیں۔ جو بچپن میں ہو اور ابھی سن شعور کو نہ پہنچا ہو لیکن وہ تمیز کی عمر کو پہنچ جائے تو صورت مسؤلہ میں باپ کا ہی حق ہے، وہ بچی کا سرپرست ہے اور اس کی تعلیم و تربیت اور شادی وغیرہ کا بندوبست کرے گا۔ بہرحال بچے کی پرورش اور تربیت کو مد نظر رکھنا ہو گا وہ کہاں بہتر ہو سکتی ہے، یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ بچہ جہاں بھی ہو گا ماں یا باپ یا کوئی دوسرا ہمدرد رشتہ دار اسے ملنا چاہے تو اس پر ہرگز پابندی نہ لگائی جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’رحم یعنی رشتہ ناطہ عرش سے لٹکا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ جو مجھے ملائے اللہ اسے ملائے اور جو مجھے کاٹے اللہ اسے کاٹے۔‘‘ [3]
لہٰذا میل ملاپ پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ (واللہ اعلم)
[1] ابوداود، الطلاق: ۲۲۷۶۔
[2] صحیح بخاری، الصلح: ۲۶۹۹۔
[3] صحیح مسلم، البروصلہ: ۲۵۵۵۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب