السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری ہمشیرہ کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش ہمارے ہاں ہوئی، ہم نے بچے کا عقیقہ کیا۔ کیا ہم بچے کی پیدائش اور عقیقہ پر اٹھنے والے اخراجات کا مطالبہ اپنے بہنوئی سے کر سکتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح رہے کہ نکاح کے بعد بیوی کے جملہ اخراجات خاوند کے ذمہ ہیں، خواہ ان کا تعلق خورد و نوش سے ہو یا علاج معالجہ یا لباس و رہائش وغیرہ سے ہو ان تمام اخراجات کا پورا کرنا خاوند کی ذمہ داری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ١ وَ مَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّاۤ اٰتٰىهُ اللّٰهُ١﴾ [1]
’’کشادگی والے کو اپنی کشادگی سے خرچ کرنا چاہیے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا ہو وہ بھی اللہ کے دئیے ہوئے سے خرچ کرے۔‘‘
رہائش کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ﴾ [2]
’’انہیں وہیں رکھو جہاں تم خود رہتے ہو۔‘‘
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پر معروف طریقہ کے مطابق ان عورتوں کو کھلانا پلانا اور انہیں لباس مہیاکرنا لازم ہے۔ [3]
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خبردار! عورتوں کا تم پر حق یہ ہے کہ تم انہیں لباس مہیا کرنے اور انہیں کھانا فراہم کرنے میں احسان کرو۔‘‘ [4]
ان آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کا ہر خرچہ خاوند کے ذمہ ہے، لیکن ہماری مشرقی روایات کچھ اس طرح تشکیل پاتی ہیں کہ شادی کے بعد بھی شادی شدہ بیٹی کے اخراجات والدین کے ذمے پڑے رہتے ہیں، اگر والدین ان کا مطالبہ کریں تو غیر مروت اور غیر مہذب ہونے کے طعنے سننے پڑتے ہیں، اس لیے والدین بے چارے رواداری میں انہیں برداشت کرتے رہتے ہیں۔ سوال میں ذکر کردہ اخراجات بھی اس قبیل سے ہیں، بچی کی شادی کے بعد اس کے ہاں پہلے بچے کی ولادت عام طور پر والدین کے ہاں ہوتی ہے۔ شرم و حیا اور نسوانیت کا کچھ تقاضا بھی یہی ہوتا ہے لیکن لڑکے والے والدین اور بچی کی اس مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ولادت پر جتنے بھی اخراجات آتے ہیں وہ بچی کے والدین ہی برداشت کرتے ہیں، خواہ بچے کی پیدائش گھر میں ہو، ہسپتال میں یا کسی پرائیویٹ کلینک میں، ڈاکٹر حضرات بھی ایسے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں، دس پندرہ ہزار روپے تو معمولی بات ہے۔ پھر ولادت کے بعد اگر مذہبی ماحول ہے تو عقیقہ کے اخراجات بھی بچی کے والدین ہی برداشت کرتے ہیں۔ شرم کے مارے کچھ کہابھی نہیں جاتا۔ حالانکہ ولادت و عقیقہ کے تمام اخراجات کو پورا کرنا شرعاً و اخلاقاً خاوند کی ذمہ داری ہے پھر جب ولادت کے بعد بچی کو واپس خاوند کے گھر رخصت کرنا ہوتا ہے تو اس وقت بھی افراط و تفریط سے کام لیا جاتا ہے۔ حالانکہ باپ تمام اولاد کے درمیان مساوات قائم رکھنے کا پابند ہے، عید، بقر عید کے موقع پر ’’عیدی‘‘ کے نام سے بھی یہی کچھ کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک اور بہت گندی رسم رائج ہے کہ جب بچی فوت ہوتی ہے تو اس کے کفن دفن کے اخراجات بھی بچی کے والدین پورا کرتے ہیں، حالانکہ اس بے چاری نے ساری عمر خاوند کی خدمتگاری میں گزاری ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے معاشرہ میں کفن کا بندوبست بچی کے والدین کے ذمہ ہوتا ہے۔ پھر کفن کے نام پر اسے سرخ رنگ کی چادر یا دوپٹہ دیا جاتا ہے گویا آج اسے گھر سے دلہن بنا کر رخصت کرنا ہے۔ اس قسم کی افراط تفریط ایک مسلمان کے شایان شان نہیں ہے، بہرحال شادی کے بعد بیوی کے تمام اخراجات خاوند کے ذمہ ہیں، اس لیے ولادت و عقیقہ اور کفن و دفن کے اخراجات خاوند کو پورے کرنے چاہئیں۔ (واللہ اعلم)
[1] ۶۵/الطلاق:۷۔
[2] ۶۵/الطلاق:۶۔
[3] صحیح مسلم، الحجہ: ۱۲۱۸۔
[4] 4 مسند امام احمد،ص: ۴۲۶،ج۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب