السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری بیوی بے نماز اور نافرمان ہے، کیا اس وجہ سے میں اسے طلاق دے سکتا ہوں؟ نیز بتائیں کہ کن کن حالات میں بیوی کو طلاق دی جا سکتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نکاح صرف پیاس بجھانے اور افزائش نسل کا ذریعہ نہیں بلکہ شریعت میں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو باہمی محبت و یگانگت اور ایک دوسرے سے سکون حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے طالب بھی ہیں اور مطلوب بھی۔ مرد کو عورت اور عورت کو مرد سے سکون ہوتا ہے اور دونوں میں ایک دوسرے کے لیے اس قدر کشش رکھ دی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے الگ رہ کر سکون حاصل کر ہی نہیں سکتے۔ جب مرد دیکھے کہ بیوی میرے لیے جسمانی یا ذہنی سکون کا ذریعہ نہیں بلکہ روح کو بے چین کرنے کا باعث ہے تو پھر نکاح کے بندھن کو کھول دینے پر غور ہو سکتا ہے، سکون و اطمینان کے فقدان کا باعث بیوی کی طرف سے نشوز و نافرمان ہونا ہے، جو طلاق کے لیے تمہید بنتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ الّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّ١ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا١ ﴾ [1]
’’اور جن بیویوں سے تمہیں سر کشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ، اگر نہ سمجھیں تو خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو پھر بھی نہ سمجھیں تو انہیں مارو، پھر وہ اگر تمہاری بات قبول کر لیں تو خواہ مخواہ ان پر زیادتی کے بہانے تلاش نہ کرو۔‘‘
نشوز کا لغوی معنی اٹھان اور ابھار کے ہیں، اصطلاحی طور پر نشوز سر کشی کو کہتے ہیں مثلاً: عورت اپنے خاوند کو اپنا ہمسر یا اپنے سے کمتر سمجھتی ہو یا اس کی سربراہی کو اپنے لیے توہین سمجھ کر اسے تسلیم نہ کرتی ہو یا اس کی اطاعت کے بجائے اس سے سر کشی اور کج روی کرتی ہو، خندہ پیشانی سے پیش آنے کے بجائے بدخلقی اور پھوہڑ پن کا مظاہرہ کرتی ہو، بات بات پر ضد کرتی ہو، ہٹ دھرمی دکھاتی ہو یا مرد پر ناجائز قسم کے اتہامات لگاتی ہو۔ یہ تمام باتیں نشوز کے معنی میں داخل ہیں، ایسی عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو تین قسم کے ترتیب وار اقدامات کرنے کی اجازت دی ہے۔
1) اسے نرمی سے سمجھایا جائے کہ اس کے موجودہ رویہ کا انجام برا ہو سکتا ہے۔
2) اگر وہ اس کا اثر قبول نہ کرے تو خاوند اس سے الگ کسی دوسرے کمرہ میں سونا شروع کر دے۔
3) اگر وہ سرد جنگ کو نہیں چھوڑتی تو اسے ہلکی پھلکی مار دی جائے، اس مار کی چند شرائط ہیں کہ اس مار سے ہڈی پسلی نہ ٹوٹے اور چہرے پر نہ مارے، اگر یہ تمام حربے ناکام ہو جائیں تو طلاق سے قبل فریقین اپنے اپنے ثالث مقرر کریں جو اصلاح کی کوشش کریں۔ اگر اس طرح اصلاح نہ ہو سکے تو آخری حربہ طلاق دینے کا ہے۔ صورت مسؤلہ میں اگر بیوی بے نماز یا نافرمان ہے تو مذکورہ بالا اقدامات سے اصلاح کی جائے بصورت دیگر طلاق دے کر اسے فارغ کر دیا جائے۔ (واللہ اعلم)
[1] ۴/النساء: ۳۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب