السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
پچھلے سال فروری ۲۰۰۹ءمیں میرا نکاح ہوا، لیکن کچھ مجبوری کی وجہ سے رخصتی نہ ہو سکی، جب کہ گھر سے باہر ہم میاں بیوی آپس میں ملتے رہے، باضابطہ رخصتی سے قبل ہی میرے خاوند نے مجھے طلاق دے دی، اب میرے گھر والے کہتے ہیں کہ اس صورت میں عدت وغیرہ نہیں ہے، وہ آگے نکاح کرنا چاہتے ہیں جب کہ میرے خاوند نے طلاق کے بعد رجوع کر لیا ہے، اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں راہنمائی کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رخصتی سے قبل اگر طلاق ہو جائے تو مطلقہ عورت پر کوئی عدت نہیں ہوتی بلکہ طلاق ملتے ہی نکاح ٹوٹ جاتا ہے اور اسے آگے نکاح کرنے کی اجازت ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا١ۚ﴾[1]
’’اے ایمان والو! جب تم اہل ایمان عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان کے ذمے تمہارا کوئی حق عدت نہیں ہے جسے تم شمار کرو۔‘‘
اس آیت کے پیش نظر سائلہ کے اہل خانہ کا مؤقف مبنی برحقیقت ہے لیکن انہیں علم نہیں ہے کہ ان کی صاحبزادی نے کچھ عجلت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے اور وہ اس آیت کریمہ کی حدود سے تجاوز کر چکی ہے، صاحبزادی کے لیے اب یہی بہتر ہے کہ وہ اپنے والدین کو صورت حال سے آگاہ کر دے اور انہیں بتا دے کہ وہ اب غیر مدخولہ نہیں ہے کہ مذکورہ آیت کے ضابطہ کے تحت آئے، اب اس طلاق کا حکم درج ذیل آیت کے مطابق ہے:
﴿وَالْمُطَلَّقٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ١ وَ لَا يَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ يَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِيْۤ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ١ وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِيْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًا١﴾ [2]
’’طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض آنے تک روکے رکھیں،انہیں حلال نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو پیدا کیا ہے وہ اسے چھپائیں اگر انہیں اللہ پر یقین اور یوم آخرت پر ایمان ہے، ان کے خاوند اس مدت میں انہیں لوٹا لینے کے پورے حقدار ہیں بشرطیکہ ان کا ارادہ اصلاح کا ہو۔‘‘
صورت مسؤلہ میں خاوند کا حق رجوع صحیح ہے اور سائلہ بدستور اس کی بیوی ہے، اس صورت میں والدین آگے نکاح کرنے کے مجاز نہیں ہیں، سائلہ کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کو پوری صورت حال سے آگاہ کر دے اور کوئی چیز چھپا کر نہ رکھے، انہوں نے جو کچھ کیا ہے معاشرتی طور پر انتہائی قابل اعتراض ہے اگرچہ شرعی طور پر اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] ۳۳/الاحزاب:۴۹۔
[2] ۲/البقرۃ: ۲۲۸۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب