سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(455) طلاق کی اجازت باپ سے لینا

  • 20104
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 651

سوال

(455) طلاق کی اجازت باپ سے لینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے بیٹے نے میری اجازت کے بغیر اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے اور وہ کسی صورت میں اسے آباد کرنے پر آمادہ نہیں ہے، میں نے اس کو رجوع کرنے پر آمادہ کیا ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ میں اس شرط پر رجوع کرتا ہوں کہ میں اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھوں گا بلکہ وہ نئی شادی کرنا چاہتا ہے، اب کتاب و سنت کے مطابق میرے لیے کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کتاب و سنت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے کا حق خاوند کو دیا ہے، اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ طلاق دینے کے لیے اپنے باپ سے اجازت لے، مشورہ کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن طلاق کو باپ کی اجازت سے مشروط کرنا صحیح نہیں ہے، جب اس نے طلاق دے دی ہے تو طلاق نافذ ہو جائے گی، اگر وہ اسے دوبارہ آباد کرنے پر آمادہ ہے تو رجوع کرنے کا اسے حق ہے لیکن یہ کسی صورت میں جائز نہیں ہے کہ وہ رجوع کرنے کے بعد اپنی بیوی سے لا تعلق رہے کیونکہ یہ بیوی کو تکلیف دینا ہے اور شریعت کی رو سے ایسا کرنا حرام ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلَا تُمْسِكُوْهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا١ۚ وَ مَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ١﴾[1]

’’اور انہیں تکلیف دینے کے لیے مت روکے رکھو، تاکہ تم ان پر زیادتی کرو اور جو شخص ایسا کام کرے گا وہ اپنے آپ پر ہی ظلم کرے گا۔‘‘

 بلکہ قرآن کریم نے بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کا حکم دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ ﴾[2]

’’اور ان بیویوں کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔‘‘

 صورت مسؤلہ میں اگر بیٹا رجوع کرنے پر آمادہ نہیں ہے تو اس پر کسی قسم کا دباؤ نہ ڈالا جائے،اگر وہ لا تعلق رہتے ہوئے رجوع پر آمادہ ہے تو اس قسم کا رجوع شرعاً ناجائز ہے، بہتر ہے کہ اس کی ذہن سازی کی جائے اور جن وجوہات کی بنا پر اس نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے، اس کی تلافی کرتے ہوئے اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان صلح کی کوشش کی جائے لیکن باپ ہونے کی حیثیت سے اس پر کسی قسم کا ناجائز دباؤ ڈالنا جائز نہیں، اگر ا سکی بیوی، باپ کی کوئی عزیزہ ہے تو رشتہ داری کے حقوق اپنی جگہ پر قابل احترام ہیں لیکن اس کے لیے خاوند کے حقوق کو قربان نہ کیا جائے گا، ہمارے معاشرے میں یہ امر قابل اصلاح ہے کہ باپ اپنی اولاد کی شادی کرتے وقت انہیں اعتماد میں نہیں لیتا پھر شادی کرنے کے بعد بھی مداخلت کی جاتی ہے، اس کی مداخلت سے بہت بگاڑ پیدا ہوتا ہے لہٰذا والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے رویہ پر نظر ثانی کریں اور نکاح سے پہلے اپنے بچوں اور بچیوں کو اعتماد میں لیں تاکہ آیندہ ہونے والے بگاڑ کا سدباب ہو سکے۔  (واللہ اعلم)


[1] ۲/البقرۃ: ۲۳۱۔

[2] ۴/النساء:۱۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:382

محدث فتویٰ

تبصرے