السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی کسی عورت سے نکاح کرتا ہے اور حق مہر بھی طے ہو جاتا ہے لیکن وہ کسی وجہ سے اس کی ادائیگی نہیں کر پاتا بلکہ وہ اسے مؤخر کر دیتا ہے کیا اس صورت میں اپنی بیوی کے پاس جا سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
طے شدہ حق مہر کی ادائیگی ضروری ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً١ فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِيْٓـًٔا مَّرِيئًا ـ﴾[1]
’’تم عورتوں کو ان کے حق مہر بخوشی ادا کرو، ہاں اگر وہ خوشی سے اس میں سے کچھ تمہیں چھوڑ دیں تو تم اسے مزے سے کھا سکتے ہو۔‘‘
اس آیت کریمہ سے معلوم ہو اکہ طے شدہ حق مہر کی ادائیگی ضروری ہے، اگر باہمی رضا مندی سے حق مہر مؤخر کرنے پر کوئی سمجھوتہ ہو جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَ لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا تَرٰضَيْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِيْضَةِ١ ﴾[2]
’’اگر حق مہر طے ہو جانے کے بعد بیوی خاوند آپس میں کوئی سمجھوتہ کر لیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘
لیکن بیوی کے پاس جانے سے پہلے پہلے اس کی ادائیگی کرنا یا مباشرت سے پہلے ادائیگی کو مشروط کرنا درست نہیں۔ اگرچہ بہتر ہے کہ اس کی ادائیگی جلد از جلد ہونی چاہیے اور خاوند کا دانستہ طور پر اس کی ادائیگی سے پہلو تہی کرنا بھی ناجائز ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] ۴/الانعام:۴۔
[2] ۴/النساء:۲۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب