سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(446) کسی معاہدے کے تحت مطلقہ بیوی سے تعلقات رکھنا

  • 20094
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1044

سوال

(446) کسی معاہدے کے تحت مطلقہ بیوی سے تعلقات رکھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے ایک دوست نے اپنی بیوی کو ایک معاہدے کے تحت طلاق دی ہے کہ وہ اس کے بچوں کی پرورش کرتی رہے، اسے پرورش اور اس پر محنت کا خرچہ ملتا رہے گا، سابقہ خاوند ہر مہینے اس کے پاس خرچہ دینے کے لیے جاتا ہے اور وہاں رات بھی گزارتا ہے، کیا شریعت میں اس امر کی گنجائش ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد اس سے تعلقات رکھے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آدمی جب اپنی بیوی کو کسی وجہ سے طلاق دیتا ہے تو وہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد دوران عدت اس کی بیوی ہی شمار ہوتی ہے، اس دوران اگر کسی کی وفات ہو جائے تو ان کے مابین تقسیم وراثت کا معاملہ قائم رہتا ہے اور جب عدت ختم ہو جائے تو نکاح ختم ہو جاتا ہے اور وہ بیوی اس خاوند کے لیے ایک اجنبی عورت کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ عدت گزارنے کے بعد خاوند کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس سے میل ملاپ یا تعلقات رکھے، اگر تیسری طلاق بھی دے ڈالی ہے تو پھر طلاق دیتے ہی رشتہ زوجیت ختم ہو جاتا ہے، اب مطلقہ عورت کا اپنے سابقہ خاوند سے اتنا ہی تعلق ہو گا جتنا ایک اجنبی شخص سے ہوتا ہے۔ اولاد کی پرورش کے بہانے ان کا ایک دوسرے کو دیکھنا، خلوت کرنا یا وہاں رات گزارنا جائز نہیں ہے، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: تین طلاق والی عورت اپنے سابقہ خاوند کے لیے باقی اجنبی عورتوں کی طرح ہے، اس بنا پر مرد کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس کے ساتھ خلوت کرے کیونکہ وہ کسی بھی اجنبی عورت کے ساتھ خلوت نہیں کر سکتا۔ اسی طرح اس کے لیے اسے دیکھنا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ وہ اس کے لیے اب اجنبی بن چکی ہے نیز اس خاوند کو اب کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ [1]

 اولاد کی پرورش اور اس کے لیے خرچہ بھیجنے کی اور بہت سی صورتیں ممکن ہیں، وہ خرچہ بذریعہ ڈاک بھی روانہ کیا جا سکتا ہے، کسی محرم کے ذریعے بھی دیا جا سکتا ہے۔ بہرحال عدت کے بعد خاوند کا اپنی سابقہ بیوی کے پاس آنا جانا شرعاً درست نہیں ہے کیونکہ وہ عورت اس کی بیوی نہیں رہی بلکہ ایک اجنبی عورت کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ (واللہ اعلم)


[1]  مجموع الفتاویٰ، ص: ۳۴۹،ج۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:376

محدث فتویٰ

تبصرے